Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

پاکستان کے لیے نیا امریکی جال

Published

on

دنیا میں حکمرانی کی نئی جنگ جاری ہے۔امریکہ اور چین اپنی اپنی شطرنج کی چالیں کھییلنے میں مصروف ہیں ۔پاکستان اس صف بندی میں اہم حثییت رکھتا ہے دونوں پارٹیاں اپنی اپنی چالیں کھیل رہی ہیں پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حالات کی وجہ کیا ہے۔

پاکستان میں پی ٹی آئی سمیت کچھ ادارے امریکہ کے حامی ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ  متعلقہ تمام افراد کے بچے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد کی سرمایہ کاری بھی امریکہ میں ہے، کچھ لوگ امریکہ کے زیر اثر ہیں جس کے عوض وہ ڈالر وصول کرتے ہیں۔ انہی افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دھرتی فروش ہیں۔

امریکا نے پاکستان پر اپنا شکنجہ کسنے کیلئے ایک نیا جال پھینک دیا ہے۔آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضوں کی وصولی میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں اس میں بھی امریکہ کی چال نظر آتی ہے وہ چاہتا ہے کہ اسلام آّباد، چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کو چھوڑ دے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان اگر سی پیک چھوڑ دیتا ہے تو امریکہ ہمیں کیا دے گا؟ یقینا وہ صرف آئی ایم ایف کے ذریعے قرض دے کر اپنے جال میں پھنسانے کی مزید کوشش کرے گا اور جب ہم مزید قرضوں میں دھنس جائیں گے پھر وہ جیسے چاہے گا ایک مقروض ملک  سے اپنی بات منوائے گا، پھر مقروض کے پاس بھی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا۔

ماضی میں بھی وہ اسی طرح پاکستان کو سکیورٹی کی مد میں دی جانیوالی اربوں ڈالر کی فوجی امداد القاعدہ اور اسکے حامی شدت پسند گروپوں کیخلاف اسلام آباد کی کارکردگی سے مشروط کرچکا ہے۔

اس وقت امریکا نے تعاون کا حساب رکھنے کیلئے اپنے مفادات پر مبنی ایک خفیہ سکور کارڈ ترتیب دیا تھا اور کہا تھا کہ مستقبل میں اسکی بنیاد پر ہی پاکستان کو عسکری امداد ملے گی۔ تعاون کے حساب کیلئے جن چار شعبوں کا تعین کیا گیاتھا ان میں اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ سے معلومات کے حصول میں مدد ¾ ، افغانستان میں جاری جنگ میں پاکستانی تعاون ¾ ، دہشت گردوں کیخلاف امریکا اور پاکستان کی مشترکہ کارروائیاں اور دو طرفہ تعلقات کی مجموعی بہتری کیلئے تعاون شامل تھا۔

کانگریس کی ریسرچ سروس کے مطابق2010ءمیں پاکستان کیلئے امریکی امداد ساڑھے چار ارب ڈالرکے لگ بھگ تھی جس میں اقتصادی اور سکیورٹی، دونوں قسم کی امداد شامل تھی۔ جہاں تک2010ءمیں ساڑھے چار ارب ڈالر کی امریکی امداد کا تعلق ہے تو 2010ءسے لیکر اب تک پاکستان نے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے وزیرستان کے علاقوں میں جو کارروائیاں کی ہیں۔ طالبان کیخلاف جو دو بڑے آپریشن کئے گئے ہیں، وہ بغیر اسلحہ کے تو ممکن نہیں تھے اور اسلحہ امریکا سے خریدا گیا تھا جسکی ایک چوتھائی رقم کمیشن کی مد میں امریکا کولوٹائی گئی اور فوجی شعبے کو ملنے والی باقی امداد اسٹرٹیجک اور عسکری سرگرمیوں پر صرف ہوئی۔ اس طرح امریکا نے جو امداد دی وہ اپنے ہی مفادات پر خرچ کروا ڈالی اوراس اندرونی جنگ میں جاں بحق ہونیوالے ہمارے سکیورٹی اہلکار تھے۔

امریکا نے اپنی رقم وصول بھی کر لی اور امداد کا احسان بھی منڈھ دیا جبکہ جانی ضیاع ہمارا ہوا۔ امریکا اس سے پہلے مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کی عسکری قیادت کو اپنے زیر اثرلا کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا ہے، مگرہماری عسکری قیادت امریکا کی ان چالوں کو بخوبی سمجھتی ہے۔

امریکہ نے ہم پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کی جس سے سے ہم چاہنے کے باوجود بھی الگ نہ ہو سکے، قوم دہشت گردی کی عالمی جنگ سے بیزارہو گئی تھی، یہ ایک بے معنی جنگ تھی جس سے نیٹو میں شامل بعض ممالک کی فوجوں نے پہلے ہی علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ جن ممالک کی فوجیں افغانستان میں موجود تھیں وہ بھی واپس چلی گئی تھیں۔

عالمی برادری امریکا کی مسلط کردہ اس جنگ سے آگاہ ہو گئی اس بات کا علم ہو گیا کہ یہ صرف امریکی مفادات کی جنگ تھی، جس کے تحت وہ دنیا بھر میں اپنا اسلحہ فروخت کرکے اپنی معیشت کو سہارا دے رہا تھا۔ یہ جنگ ختم ہو جائے، ایسا کرنا امریکا کے مفاد میں نہیں تھا۔ مگر پاکستان سمیت متعدد ممالک جو اس جنگ میں امریکا کے حلیف تھے اس سے پہلو تہی کرنے لگے جس کے باعث امریکہ کو افغانستان سے ذلیل ہو کر واپس جانا پڑا۔

جہاں بھی پاکستان کے مفاد کا مسئلہ ہو امریکہ کے مفادات آڑے آتے ہیں، کئی سال قبل ایران اور پاکستان کے درمیان ایک گیس پائپ لائن کا معاہدا ہوا لیکن امریکہ نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ رکوا دیا اور فرمان جاری کیا تھا کہ اگر پاکستان نے ایران سے گیس لی تو اسکے تباہ کن نتائج نکلیں گے۔ گویا پاکستان کو دھمکی دی گئی۔

تباہ کن نتائج کے لیے دلیل یہ گھڑی گئی کہ چونکہ ایران پر پابندیاں عائد ہیں لہٰذا پاکستان نے ایران کیساتھ ڈیل کی تو یہ پابندیوں کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ملک پر پابندیاں عائد ہیں اس نے کبھی امریکی اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔

ایران نے چین اور کوریا کیساتھ تجارتی تعلقات قائم کرکے نت نئی منڈیاں تلاش کیں اور ایک بار بھی پابندیوں پر تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ جس ملک پر پابندیاں عائد ہیں اسے اس ضمن کوئی پرواہ یا فکر نہیں ہے اور ایک دوسرے ملک کو پابندیوں کا ایکٹ یاد دلایا گیا۔

پاکستان کو چونکہ امریکہ کا مفاد عزیزتھا نتیجتا عوام سستی گیس سے محروم رہے اب صورتحال یہ ہے کہ مہنگی گیس بھی دستیاب نہیں ہے۔اب بھی اگر ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور امریکہ کی جھولی میں جانے کی خواہش کریں تو ہم سے بڑا بے و قوف بھی کوئی نہ ہو گا ۔

اب ہمیں نئی دنیا کی طرف جانا ہو گا، چین کے ساتھ مل کر نیا بلاک بنانا ہو گا، جس میں سعودی عرب ،ایران اور روس بھی شامل ہوں۔ اسی میں ہماری بقا ہے کیونکہ دنیا میں جب بھی کسی نے ترقی کی ہے خطوں نے کی ہے اور اگر یہ خطہ اکتھا ہو کر چلتا ہے تو یقینا یہ خطہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ خطہ ہو گا۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین