کالم
’ باپ‘ کے بعد اب ’ ماں پارٹی‘ بنے گی؟
سربراہ مسلم لیگ نون میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان ہوچکا۔ سیاست اور حکومت میں بھرپور کم بیک کے لئے ان کی سیاسی اور قانونی ٹیمیں اپنے اپنے محاذ پر کام کررہی ہیں۔ وکلا نے انہیں گرین سگنل دے دیا ہے کہ حفاظتی ضمانت کا راستہ اختیار کرنے سے جیل نہیں جانا پڑے گا جبکہ پارٹی تنظیمیں ان کے استقبال کے لئے ملک بھر میں کارکنوں کو متحرک کررہی ہیں۔
مسلم لیگ نون نے ایک طرح سے یہ ماحول بنا لیا ہے کہ نوازشریف نہ صرف واپس آرہے ہیں بلکہ چوتھی بار وزیراعظم بھی بنیں گے۔ لیکن جب معاملات میں اس حد تک پیش رفت ہوچکی تو ابھی تک یہ بحث کیوں ہو رہی ہے کہ نوازشریف واپس آئیں گے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی سرگوشیاں ہورہی ہیں جنہیں آپ آپشن بھی کہہ سکتے ہیں، سیاسی گپ شپ یا سازشی تھیوری بھی۔ بلکہ مخصوص حلقوں میں انہیں پلان اے، پلان بی اور پلان سی کے نام سے زیربحث لایا جاتا ہے۔ بہرحال آج ان ہی میں سے ایک نئے آپشن، سیاسی کہانی یا سازشی تھیوری یا پلان پر بات کریں گے۔
بعض حلقوں کا اصرار ہے کہ نوازشریف اگر سیاست سے مائنس کئے گئے تھے تو ایسا انہیں دوبارہ حکومت میں لانے کے لئے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اب جبکہ عمران خان بھی مائنس ہوچکے ہیں تو مقتدر حلقوں کے لئے اس سے آئیڈیل صورتحال نہیں ہوسکتی کہ پاپولر لیڈرشپ کے بغیر ہی ان کی پارٹیاں ملک کی خدمت کے لئے دستیاب ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں باپ پارٹی کے تجربے کے بعد اب اسٹبلشمنٹ اس کا دائرہ پورے ملک پر پھیلانا چاہے گی۔
اگرچہ باپ پارٹی میں شامل کئے گئے متعدد لوگ آئیڈیل کردار کے مالک نہیں۔ لیکن اس بار مقتدر حلقوں کی ترجیح ایسی سیاسی شخصیات کو آگے لانا ہے جن پر کرپشن کے کوئی الزامات نہ ہوں۔ اور وہ اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔ یعنی ایک بار پھر ملک میں ٹیکوکریٹس کی حکومت کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس بار ماڈل مختلف ہوگا۔ اس کے لئے ایسے سیاسی ٹیکنوکریٹس کا انتخاب کیا جائے گا جو بڑی سیاسی پارٹیوں کے منتخب ارکان ہوں گے۔ مختلف شعبوں میں پروفیشنل تکنیکی بیک گراونڈ کے حامل بھی ہوں گے۔ خاص طور پر فنانس، سرمایہ کاری، انرجی، پلاننگ، انجنئیرنگ،تعلیم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبے میں مہارت رکھنے والی ایسی شخصیات جو ایوانوں میں منتخب ہوکر تو آتی ہیں لیکن اپنی جماعتوں کے اندر لابی نہ ہونے کی وجہ سے حکومتوں میں انہیں کردار نہیں دیا جاتا۔ اور وزارتیں محض سیاسی بارگیننگ کے لئے غیر متعلقہ افراد میں بانٹ دی جاتی ہیں۔
ذرائع کا دعوٰی ہے کہ اس حوالے سے مقتدر حلقوں میں بڑی سنجیدگی سے کام جاری ہے۔ نیب ترمیمی ایکٹ کے سپریم کورٹ سے کالعدم قرار پانے کو بھی انہی کوششوں سے جوڑا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف میاں نوازشریف، آصف زرداری سمیت ان کی پارٹیوں کے اہم رہنماؤں کے کیسز دوبارہ کھل گئے ہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے میاں شہبازشریف کے خلاف بھی منی لانڈرنگ کے کیسز دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں۔
نگران حکومت اس عدالتی فیصلے کے خلاف ابھی تک اپیل میں بھی نہیں گئی اگر یہ سلسہ اسی طرح جاری رہتا ہے اور نیب ترمیمی ایکٹ بحال نہیں ہوتا تو میاں نوازشریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کی کوشش، خواہش اور دعوے پر اسی طرح سوال اٹھتے رہیں گے۔ مجوزہ پلان کا انکشاف کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ نیب ترمیمی ایکٹ کے کالعدم ہونے کے نتیجے میں الیکشن سے پہلے ایک فلٹر کے ذریعہ بہت سے ناپسندیدہ چہروں کو انتخابی میدان سے باہر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجوزہ پلان کے تحت تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود ٹیکنوکریٹ سیاستدان اہمیت اختیار کرجائیں گے۔ ایسی شخصیات کی الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران بھرپور پذیرائی کی جائے گی۔ ان کے لئے الیکشن جیتنے کے لئے جس قدر ممکن ہوسکا سازگار ماحول بنایا جائے گا اور الیکشن کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے ٹیکنوکریٹ سیاستدانوں پر مشتمل ایک صاف ستھری ساکھ والی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی جائے گی جنہیں اپنی اپنی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کا اعتماد بھی حاصل ہوگا۔
اس تمام ایکسرسائز کا مقصد ملک میں اقتصادی بحالی کو ممکن بنانا ہے۔ اس آئیڈیا سے اتفاق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں باپ پارٹی کے ذریعہ صوبے میں دہائیوں سے من مانیاں کرنے والی جماعتوں، سرداروں، نوابوں اور وڈیروں کی اجارہ داری بڑی حد تک ختم ہوئی ہے اگرچہ اس میں شامل تمام شخصیات بے داغ سیاسی کیرئیر کی حامل نہیں لیکن قومی سطح پر ایک ایسی سیاسی پارٹی یا مشترکہ حکومت کی اس وقت کوشش کی جارہی ہے جو ملک اور عوام کا ایک ” ماں ” کی طرح خیال رکھے۔
لندن میں اپنے پارٹی قائد نوازشریف سے ملاقات کے بعد شاہد خاقان عباسی نے باہر نکل کر پھر کہہ دیا کہ ملک میں نئی پارٹی کی گنجائش موجود ہے اور یہ ضرور بنے گی۔ نون لیگ سے ہی مفتاح اسماعیل بھی ان کے ہمنوا ہیں جبکہ مصطفٰی نوازکھوکھر تو نئی پارٹی کے قیام کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان اصحاب نے ابھی تک نئی پارٹی کی تشکیل کے لئے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ تو کیا ان کا اشارہ بھی اسی مجوزہ ماڈل کی طرف تو نہیں ؟
کہنے کو اسے ایک سیاسی کہانی، داستان، سازشی تھیوری، پلان بی،سی کہا جاسکتا ہے لیکن ماضی میں کنونشن مسلم لیگ، جونیجو لیگ، قاف لیگ اور پیٹریاٹ گروپ اور پی ٹی آئی کی طرز پر ایسے تجربے عملی شکل اختیار کرتے دیکھے گئے ہیں۔ بہرحال اب یہ بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے وجود کو انتخابات میں محفوظ اور برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر بلوچستان کی "باپ پارٹی” کے بعد قومی منظر نامے پر منتخب سیاسی ٹیکنوکریٹس کی "ماں پارٹی” ان کی جگہ سنبھال لیتی ہے۔ انتظار کی گھڑیاں اب طویل نہیں۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی