Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

مردم شماری میں سنگین بے قاعدگیوں کے الزامات، کیا کراچی کو وسائل کی منصفانہ منتقلی ممکن ہو پائے گی؟

Published

on

کسی بھی گھر کی  آمدن اور خرچ کا تعین اس  گھر کے افراد کی تعداد سے ہوتا ہے، ایسے ہی کسی ملک کی آبادی جب تک معلوم نہ ہواس وقت تک وسائل کی  تقسیم منصفانہ نہیں ہو سکتی۔ مردم شماری  آبادی کی گنتی ہے کہ ہمارے یہاں کتنے نوجوان، بزرگ  م خواتین، بچے اور جوان ہیں اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع کتنے درکار ہیں اور کس قدر دستیاب ہیں۔

اس مقصد کے لیے ملک میں مردم شماری شروع ہو چکی ہے اور پہلی بار یہ ڈیجیٹل طریقے سے ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کا مقصد ماضی میں اٹھنے والے اعتراضات کا خاتمہ اور شفافیت لانا تھا۔ ڈیجیٹل مردم شماری کے باوجود اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور شفافیت کا تاثر نہیں بن پایا۔

مردم شماری  پر اعتراضات

ڈیجیٹل مردم شماری پر سب سے پہلا اعتراض  یہ آیا  کہ خاندان کے اندراج کے لیے ہر گھر کے سربراہ کو خود آن لائن اندراج کرنا تھا اور ملک میں ہر گھر میں انٹرنیٹ کی دستیابی ہے نہ ہی خواندگی کی شرح اچھی ہے۔ اس لیے رجسٹریشن کوڈ کا حصول ایک عام آدمی  ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے فرد کے لیے مشکل مرحلہ تھا۔  کراچی میں اس  مرحلے پر ہی اعتراض اٹھ گئے اور سب سے پہلے اعتراض ایم کیو ایم کی جانب سے آئے۔ ایم کیو ایم کا دیرینہ موقف ہے کہ شہر کی آبادی کو درست طور پر شمار کر کے وسائل اس کے حق کے مطابق دیئے جائیں ۔

اس بار پھر مردم شماری کے عمل میں سنگین بے قاعدگیوں کے الزامات سامنے آ رہے ہیں ۔  محکمہ شماریات نے کراچی کو خانہ و مردم شماری کے لحاظ سے 16ہزار بلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا ور یہ طے ہوا تھا کہ ہر بلاک میں 200سے250 گھر ہوں گے لیکن ڈھائی سو کے بجائے 185گھر رکھے گئے ہیں۔  اس کے برعکس اندرون سندھ میں ایک بلاک میں ڈھائی سو رکھے گئے ہیں ۔اسی طرح ایک گھرانہ اوسط 6افراد پر مشتمل ہوتا ہے مگر یہاں 5 افراد پر مشتمل گھرانہ ظاہر کیا گیا ہے ۔

صرف ایک فرد کی سکونت والے مکانات بڑھ گئے

کراچی میں 32ہزار کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں جن کی درست طریقے سے خانہ و مردم شماری نہیں کی جاسکی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے مکانات جہاں صرف فرد واحد رہتا ہے ایسے گھروں کی تعداد ایک فیصد سے ڈیڑھ فیصد تک ہے مگر کراچی میں ایسے گھروں کی اوسط تعداد 9فیصد کردی گئی ہے۔

اس  ایک الزام یہ ہے کہ کراچی میں  10لاکھ سے زائد گھروں اور حیدرآباد میں ڈیڑھ لاکھ گھروں کا شمار نہیں نہیں کیا گیا۔اعداوشمار میں ہر بلاک سے 6،6 مکانات کم ظاہر کئے گئے ہیں اور یوں شہری آبادی کو کم ظاہر کرکے اس کا استحصال کیا گیا ہے۔

ملک کی پہلی مردم شماری

ملک میں ہونے والی ہر مردم شماری پر اعتراضات اٹھتے رہے ہیں ۔قیام پاکستان کے 4 سال بعد ملک کی آبادی کے تعین اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔  فروری 1951 میں پہلی مردم شماری کی گئی ، مردم شماری کا عمل  9 فروری 1951 کو شروع ہوا، پہلے دن کراچی  میں گورنر جنرل ہاؤس (موجودہ گورنر ہاؤس) میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور ان کے خاندان کے افراد کے نام درج کئے گئے تھے۔  یہ مردم شماری 28 فروری 1951 کو پایہ تکمیل کو پہنچی اس مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ58 لاکھ 42 ہزار تھی ۔اس میں مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 42لاکھ 63 ہزار یعنی کل آبادی کا (55.6)اور مغربی پاکستان کی آبادی 3کروڑ37لاکھ79ہزار (کل آبادی کا 44.4 فیصد) تھی ۔

آبادی کی گنجانی 208فی مربع میل اور خواندگی کا تناسب 13.8فیصد تھا پہلی مردم شماری کاقابل ذکر پہلو یہ تھا کہ یہ کام رضاکارانہ طور پر انجام دیا گیا تھا سرکاری ملازمین کے علاوہ کارکنوں کی اکثریت اعزازی تھی ۔

ملک کی دوسری مردم شماری

پاکستان کی دوسری مردم شماری کمشنر  آر ڈی ہاو کی نگرانی میں  12جنوری 1961سے یکم فروری1961تک ہوئی تھی۔ 3مارچ 1961کو وزیرداخلہ ذاکر حسین نے مردم شماری کے حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان کی آبادی 9کروڑ28لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس طرح پاکستان آباد کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک تھا ۔ایک مربع میل رقبے میں 1120افراد بستے تھے ۔پاکستان میں خواندگی کا سب سے زیادہ تناسب راولپنڈی میں تھا ،اس مردم شماری کے مطابق 24.1فیصد افراد لکھنا پڑھنا یا کم ازکم اپنے دستخط کرنا جانتے تھے۔

سقوط ڈھاکہ کے باعث تیسری مردم شماری میں تاخیر

یکم ستمبر 1972کو ہونے والی تیسری مردم شماری سقوط ڈھاکہ کے باعث ایک سال کی تاخیر سےہوئی ۔مردم شماری کا پہلامرحلہ یکم ستمبرسے 15 ستمبر تک جاری رہا ۔اس دوران مکانوں پر نمبر لگائے گئے گھروں کی فہرستیں تیار کی گئیں اور رہائشی یونٹوں کی فہرست مکمل کی گئی۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں 16ستمبرسے30ستمبر1972کو ملک بھر میں80 ہزار شمار کندگان نے گھر گھر جاکر گنتی کے گوشوارے مکمل کئے ۔اس مردم شماری کے نتیجے میں پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ تھی ،جبکہ  1981 میں ہونے والی چوتھی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 8 کروڑ 37 لاکھ ہوگئی تھی ۔ سترہ سال کے طویل عرصے بعد 1998 میں ہونے والی پانچویں مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار ریکارڈ کی گئی۔

چھٹی مردم شماری انیس سال کے وقفے سے ممکن ہوئی

انیس سو اٹھاسی کے  بعد متعدد مرتبہ مردم شماری کی تاریخیں دی گئیں مگر 19 سال بعد 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کا آغاز 15مارچ سے ہوا ، اس بار مردم شماری کا عمل پہلی بار دو مراحل میں کیا گیا، چھٹی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار پانچ سو بیس افراد پر مشتمل تھی، گذشتہ 19 سالوں کے دوران ملک کی آبادی میں 7,54,22,241افراد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 57 فیصد اضافے کے برابرہے مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں کو بھی گنتی میں شامل کیا گیا تھا جن کی تعداد 10418 بتائی گئی ہے۔

کراچی کو وسائل منصفانہ طور پر ملتے دکھائی نہیں دیتے

حالیہ مردم شماری میں توقع کی جارہی تھی کہ درست اعداد و شمار کی بنیاد پر ملکی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کی جاسکے گی اور اس طرح  عالمی برادری میں پاکستان کو اپنا امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی لیکن ان تمام معاملات کا انحصار اس بات پر تھا کہ مردم و خانہ شماری کا عمل متنازع نہ ہو اور اس کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور سب کچھ توقعات کے برعکس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کراچی کی درست مردم شماری اور اس کے نتیجے میں وسائل کی منصفانہ  منتقلی تک  شہر کے مسائل کا حل ناممکن  ہے۔

شاہ ولی اللہ جنیدی ایک سرگرم اور تجربہ کار صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی شہر کے موضوع پر ایک مستند محقق اور مولف بھی ہیں۔ روزمرہ رپورٹنگ کے دوران وہ شہری مسائل کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اس مقام کے قیام کے پس منظر اور تاریخ کی گہرائیوں میں اتر کر کرید کرید کر معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور پھر اسے شائقین کے لئے کتابی شکل میں پیش کر دیتے ہیں ۔ کراچی کے حوالے سے دو کتابوں ، یہ شارع عام نہیں، نارتھ کراچی نصف صدی کا قصہ، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین