Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

اپنا اپنا جواب سوچ کر رکھیں

Published

on

ہماری دنیا میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سے کوئی ناخوش ہے تو اس کو سزا وار ٹھہرایا جائے۔سزا کا تعین بھی خواہشات کا تابع ہے۔اللہ تعالیٰ ہر فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ  کے ہر فیصلے کو اس کی مشیت  کہا جاتا ہے اور مشیت الٰہی کے تین واضع پہلو ہیں۔ایک ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے مطابق ایک شریعت کا نفاذ کردیا گیا ہے اس شریعت میں گناہ،ثواب ،غلط ، صحیح، اچھا، برا سب صاف صاف بیان کردیا گیا ہےاور یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ  رب کی مرضی  سے ہر قانون وجود میں آیا ہے۔

مشیت کا دوسرا پہلو ان قوانین کے آگے سر تسلیم  خم کرنا ہے۔ کائنات کے  مالک نے ہر تخلیق کردہ شے کے قوانین بنا دیئے ہیں اور ان کی خلاف ورزی  کو اللہ کے قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا اور  اگر رب کے بنائے گئے نظام میں کوئی ایک مخلوق بھی   اس سے روگردانی کرے توتو پھر کائنات کی تمام مخلوقات اپنے اپنے دائرے سے نکل جاتی ہیں تو خدانخواستہ کائنات ہی ختم ہوجائے۔جیسے سورج کا ایک وقت پر نکلنا ہے اور چاند  کے طلوع و غروب کا تعین کردیا گیا ہے۔

اللہ کی مشیت کا تیسرا اوراہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی ذات اور نفس اللہ کے قانون کے تابع ہے اور حدود سے تجاوز پر سزا کا تعین کردیا گیا۔دنیا کے بنیادی امور کے فیصلے اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں۔اللہ جیسی چاہے تخلیق کرتا ہے اور جو چاہے قوانین اپنی مرضی سے متعین کرتا ہے۔لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفات میں عادل ہونا ،حکیم ہونا اور رحیم ہونا بھی شامل ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہرگز ظلم نہیں کرتا۔

لیکن ظاہر ہے اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق  بعض  ارضی قوانین بناتے ہوئے  عدل کا لحاظ کرتی ہے  نہ قانون کی پاسداری ہوتی ہے  اور رحم تو سراسر ہے ہی نہیں۔ملک میں قوانین کو بظاہر شریعت کے تابع بنایا گیا ہے لیکن قانون بنانے والے اور عوام  نفس  ہاتھوں مجبور ہیں۔اس ملک میں، ہر دور میں ، انسانی عدلت کسی نہ کسی  نظریہ ضرورت، وقت کی مجبوری اور ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔حالت یہ ہے کہ  ملک میں انصاف نہیں ہوتا ، قانون کی پاسداری ہوتی ہے نہ  فیصلوں کا احترام۔ہر کوئی عدل کے نام پرخود  کوخدا سمجھے بیٹھا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف ایک جھوٹے مقدمے میں کٹہرے میں لائے گئے ، تب ان کو نااہل کرنا  عدل کی جیت اور انصاف کا تقاضا  ٹھہرا،  آج سابق وزیر اعظم عمران خان اسی انسانوں کی بنائی ہوئی عدالت سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور منصفوں کا تو کیا  کہنا، اگر تکبر اور ضد میں کوئی خدا بن سکتا تو  مخلوق اس کے سامنے سجدہ  ریز ہوتی۔

انصاف کے نام پر  عدل کا جو مذاق بنایا گیا ہےوہ اس ملک کو بہت بھاری پڑا ہے۔ادارے اچھے یا برے نہیں ہوتے۔ انصاف بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا،،انصاف سب کو خوش کرنے کا نام نہیں  اور عدل کسی پسند یا نا پسند پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ملک میں صرف عدلیہ میں ہی  مالک و مختار نہیں  بلکہ  ہر ادارے میں کوئی نہ کوئی  انسان  خود  کو دوسرے سے بہتر  اور  بالاتر  تصور کرتا ہے حتیٰ کہ وہ بزعم خود ملک سے  بھی برتر ہے ۔

انصاف کا فقدان کی وجہ سے ملک اور اداروں کی قیادت و سیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں آجاتی ہے جو اس کا اہل نہیں ہوتا وہ کسی کے حق کو غصب کر کے آگے آتا  یا لایا جاتا ہے۔

اس کی مثال کسی  عہدیدار کی مدت ملازمت میں توسیع یا اس وقت سے پہلے گھر بھیجنا ہے۔ ان اقدامات سے   میرٹ پامال ہوتا ہے۔اگر مدت ملازمت کے لیے دو تہائی ترمیم بھی کردی جائے تو تو وہ مباح یا حلال نہیں ہوجاتی کیونکہ اس سے  بھی کسی حق غصب ہو جاتا ہے۔

آئین تو تب بھی تھا جب سابق جنرل مشرف مرحوم نے آئین کو یہ کہہ کررد کر دیا تھا کہ یہ کوئی حدیث تو نہیں،آئین اور قانون تب بھی قائم و دائم تھا جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی۔ یہ وہ 73 ء کا آئین تھا جس کو ضیا الحق نے اپنے بوٹ کے نیچے روند دیا تھا اور آئین تو تب بھی تھا جب اس ملک میں کارگل جیسا ایڈونچر ہوا۔آئین اور قانون کی رٹ تو تب بھی قائم تھی جب نواز شریف صاحب کو ہائی جیکنگ کیس میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور یہ آئین کی شق میں رقم تھا کہ سعودی عربیہ سے مذاکرات کے ذریعے نواز شریف بمعہ اہل وعیال جدہ جلا وطن کردئیے گئے۔

قانون تو تب بھی وہی تھا جب مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ لندن میں بستر مرگ پر تھیں اور خاوند اور بیٹی جیل جانے کیلئے واپس وطن پہنچے۔اس آئینی اور قانونی موقف کی تاویلیں باندھنے کیلئے ہمارا میڈیا بھی پیش پیش رہا، اس وقت یہ زیادتی نہیں تھی کہ میڈیا پر بیٹھے اینکر حضرات نواز شریف کو اپنی بیوی کے جنازے پر افسردہ دیکھ کر کہا’’دیکھو حرام کھا کھا کے اس کا منہ کیسا ہوگیا ہے؟‘‘ان الفاظ کے بعد ایک ہنسی بھی سنائی دیتی تھی اور  دانت بھی دکھتے تھے ۔

یہ قانون کی بالادستی ہی تو تھی جب 2018 ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس  بٹھادیا گیا۔آئین کی حرمت ہی تو تھی جب عمران خان صاحب کو ملک کا وزیر اعظم بنوایا گیا۔۔عمران کے ہینڈلرز برملا  ملک کی پارلیمان ، ملک کے مفادات اور معیشت کو  پس پشت ڈال کردھمکی آمیز پیغام  دے رہے تھے اور یہ سب آئین کی موجودگی میں ہی  ہو رہا تھا ۔  قانون تو اس دن بھی بہت خوش تھا جس دن نجی ہوٹل میں مریم نواز شریف  کے  کمرے کا دروازہ توڑا گیا ۔ یہ قانون ہی تو تھا جو  اجازت دیتا تھا کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ جن کی اہلیت کی بنیاد صرف ان کا نام کا  ’’ع‘‘ سے شروع ہونا تھا۔ فرح گوگی کی صوبےکے معاملات میں مداخلت بھی تو آئین اور قانون کا تقاضا تھا۔

قوم کے منتخب نمائندوں کو دھمکی کی بنیاد پر ایوان میں لانا اور  بل منظور کروانا یہ سب بھی آئین کی موجودگی میں ہوا تھا۔زمان پارک لاہور میں عمران خان صاحب کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم مہینوں رہا،بریانی کی دیگیں چڑھیں، عوام کے دل کے ساتھ ساتھ کباب سیخوں پر چڑھائے گئے ،کبھی حلوہ پوری تو کبھی دودھ لسی ،کبھی قورمے تو کبھی نان ، یہ کام کسی بینکوئٹ ہال  میں بھی ہو سکتے تھے ۔ کیا زمان پارک کے  مکین اپنی زندگی  اپنی مرضی سے جینے  کے حق سے  دستبردار ہوگئے تھے؟۔کیا یہ روڈ عمران خان  کی ذاتی ملکیت تھی؟۔ کیا لوگوں کے راستے پر روڑے اٹکانا کسی کی زندگی کو یوں محصور کردینا کہ وہ ڈر کے مارے اپنے گھر سے باہر ہی نہ نکلے کیا یہ سب آئینی تھا۔زمان پارک میں آپریشن کی قانونی حیثیت کو آئینی لباد پہنایا گیا ۔ سابق خاتون اول کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یا جرم، جو بھی آپ سمجھ لیں، یا پھر پرویز الٰہی  کے گھر کا گیٹ توڑنے کا غیر قانونی  اقدام، جبر یا ظلم جو بھی سمجھ لیجئے،اس ملک میں سب چلتا ہے۔

آئین اور قانون کو نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے، قانون کو من چاہا رنگ دیے کا چلن ہے۔آئین و قانون کی حدود و قیود کا تعین بوقت ضرورت حسب منشا اور سیاسی مفاد تک محدود ہے۔اب  تین  رکنی بینچ  اپنے فیصلے کو جتنی بار چاہے کسی کو باور کرانے کی کوشش کرے، پارلیمنٹ  اور اداروں  کی حدود و قیود کے لیے  زمین پر لکیر یں کھینچے، بات اتنی بگڑ چکی ہے کہ پنجاب کا دنگل سج چکا ہے۔اس سجاوٹ میں آئین کی لڑیاں قانون کے دھاگے میں پرو دی گئی ہیں،اداروں نے اپنی اپنی پوزیشینز سنبھال لی ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

جو بگاڑ اس ملک میں سیاست دانوں نے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں  کے ہاتھوں مجبور ہو کر پیدا کیا اب اسے سدھارنا کسی کے بس میں نہیں۔  کسی کو علم نہیں کہ کچے کے علاقےمیں ڈاکو ہم پر حاوی ہیں یا دہشت گرد تنظیموں کے لوگ زمان پارک میں موجود ہیں، کس کا تیر کس کی کمان سے نکلا ہے؟

اب وقت ہے پانامہ کیس کے فیصلوں کے بعد رسوائی کا، چودھری ثاقب نثار اور ان کے فرزند کی آڈیو لیکس کا سلسلہ جاری ہے، سابق چیف جسٹس  ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فرعونیت کا اظہار کر رہے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کا ساتھ دیا  لیکن کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں۔

جنرل (ر) باجوہ برملا گناہوں  کا اعتراف کر چکے ہیں لیکن کفارہ قوم دے گی،سابق ڈی جی آئی ایس آئی  جنرل (ر)فیض حمید کی باقیات کا سلسلہ ابھی  تھما نہیں، عدلیہ اپنی مشیت کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو چاہتی ہے۔پارلیمنٹ 3معزز جج صاحبان کو استحقاق کمیٹی میں طلب کرنا چاہتی ہے۔عمران خان اپنی مشیت کو منوانے کیلئے 2 تہائی اکثریت سے خود کو دوبارہ وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں اور اس ملک کے22 کروڑ عوام بس سستا آٹا چاہتے ہیں۔لیکن کیا کیجے کہ اٹل فیصلہ  تو اللہ  کا ہے جو اپنے  فیصلوں میں  کسی کو جواب دہ نہیں، باقی سب اپنا اپنا جواب سوچ کر رکھیں۔

ثنا بچہ سینئر اینکرپرسن اور تجزیہ نگار ہیں، مختلف ٹی وی چینلز کے پولیٹیکل شوز میں شریک ہوتی ہیں،انگریزی زبان کے ٹی وی چینل سے کیرئیر کا آغاز کیا، کئی ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کی میزبان رہیں، ملکی سیاست کے علاوہ خارجہ تعلقات، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے امور پر لکھتی ہیں،کنگز کالج لندن سے پولیٹیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین