Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

بائیڈن کو بڑی عدالتی شکست، سپریم کورٹ نے سٹوڈنٹ قرض معافی پروگرام روک دیا

Published

on

امریکی صدر جو بائیڈن کو سپریم کورٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، امریکی سپریم کورٹ نے 6۔3 سے صدر بائیڈن کے 430 ارب ڈالرز کے سٹوڈنٹس قرضے معاف کرنے کے فیصلے کو روک دیا ہے، بائیڈن کے اس فیصلے سے 43 ملین امریکیوں کو فائدہ ہونا تھا اور جو بائیڈن اپنا بڑا انتخابی وعدہ پورا کر کے نئی مدت صدارت کی الیکشن مہم کو کامیابی سے آگے بڑھا سکتے تھے۔

امریکا کی قدامت پسندی کی جانب رجحان رکھنے والی 6 ریاستیں صدر بائیڈن کی اس پالیسی کے خلاف تھیں، عدالتی فیصلے سے 26 ملین مقروض امریکیوں کو بھی دھچکا لگا ہے جنہوں نے بائیڈن کی طرف سے اگست 2022 میں اس پالیسی کے اعلان کے بعد قرض ریلیف کی درخواستیں دی تھیں۔

امریکی چیف جسٹس جان رابرٹس نے بھی پانچ قدامت پسند ججز کا ساتھ دیا جنہوں نے اکثریتی فیصلہ دیا، تین لبرل ججز نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

صدر بائیڈن نے فیصلے کو مایوس کن اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس رابرٹس نے صدر کی اس دلیل کا مذاق اڑایا کہ قرض معافی پہلے سے جاری پروگرام میں ترمیم ہے، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اس وسیع اقدام کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے لکھا کہ وزیرتعلیم کا یہ کہنا ہے مجوزہ پروگرام میں درج بالا دفعات میں ’ تبدیلی ‘ کی گئی بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے کہ انقلاب فرانس نے فرانسیسی اشرافیہ کی حیثیت تبدیل کردی ہے۔ چیف سٹس نے لکھا کہ یہ تبدیلی نہیں بلکہ ن دفعات کا مکمل خاتمہ اور ان کی جگہ نئی دفعات کو شامل کرنا ہے۔ وزیر تعلیم نے معافی پروگرام کو ملک کے تقریبا ہر مقروض تک توسیع دے دی ہے۔

یہ فیصلہ ’ بڑے سوالات نظریہ‘ کو استعمال کرتے ہوئے دیا گیا جو ججز کو وسیع سیاسی و معاشی اہمیت کے معاملات میں ایگزیکٹو کے فیصلوں کو کالعدم کرنے کے اختیارات دیتا ہے جب تک کہ کانگریس واضح قانون سازی کے ذریعے ایگزیکٹو کو اختیارات نہیں دے دیتی۔

امریکی ریاستوں آرکنساس، آئیووا، میسوری، نبراسکا اور جنوبی کیرولینا نے صدر بائیڈن کے قرض ریلیف کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ ہمارا 90 فیصد ریلیف پروگرام ان مقروض امریکیوں کے لیے تھا جو 75 ہزار ڈالرز سالانہ سے کم کما رہے ہیں اور ایک لاکھ 25 ہزار ڈالرز سالانہ کمنے والوں کو اس میں کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا تھا، یہ لاکھوں امریکیوں کی زندگی بدل دینے والا ریلیف تھا اور امریکا کی ترقی  کے لیے اہم تھا۔

صدر بائیڈن نے 1.6 ٹریلین وفاقی قرضوں میں سے کالج گریجویٹس کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ری پبلکنز نے اس پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ کالج گریجویٹس کو ریلیف دینا اور باقی امریکیوں کو یلیف نہ دینا منصفانہ نہیں اور صدارتی اختیارات سے تجاوز ہے۔

اس پروگرام کے تحت کالج تعلیم کے لیے قرض لینے والے امریکی جو ایک لاکھ 25 ہزار سالانہ سے کم کما رہے ہیں کو 10 ہزار ڈالرز تک وفاقی قرضوں میں ریلیف دیا جانا تھا۔

بائیڈن نے ری پبلکن پارٹی کے ارکان کانگریس پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ تاجروں نے کووڈ 19 کے دوران اربوں روپے کے ریلیف لیے اور ان کے قرض بھی معاف کر دیئے گئے لیکن جب لاکھوں ورکنگ کلاس امریکیوں کی بات آتی ہے تو یہ اسے روکنے کے  لیے پورا زور لگا دیتے ہیں۔

ایک جائزے کے مطابق 53 فیصد امریکی بائیڈن کے ریلیف پروگرام کے حامی ہیں جبکہ 45 فیصد اس کے مخالف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین