کالم
کیا الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں؟
8 فروری کو ہونے والے قومی انتخابات میں لگ بھگ ایک ماہ باقی رہ گیا ہے لیکن انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بے یقینی برقرار ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 5 جنوری کو سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد نے انتخابات نہ ہونے کے بارے میں اندیشوں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ انتخابات مقرر وقت پر ہونگے یا نہیں؟
ابھی سینیٹ کی قرارداد پر سیاسی مفروضے گردش کر رہے تھے کہ اچانک سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جو ابھی منظور نہیں ہوا۔ اس خبر کے بعد الیکشن کمیشن کی وضاحت آئی کہ سیکرٹری عمر حمید اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں تاہم گذشتہ دنوں سے صحت کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں۔ وضاحت میں یہ امید ظاہر کی گئی کہ صحت نے اجازت دی تو وہ جلد ہی کام شروع کر دیں گے۔
اس طرح کی صورتحال میں انتخابات کے بارے میں شکوک کا پیدا ہونا فطری ہے۔ انتخابات 60 دنوں میں ہونا تھے جو نوے دن تک گئے اور پھر یہ آئینی ڈیڈ لائن بھی پوری نہیں ہوسکی. ماضی یعنی 1988 اور 2007 کے انتخابات میں کچھ تاخیر ہوئی تھی لیکن اس قدر تاخیر کبھی نہیں ہوئی۔
سینیٹ میں قرارداد جس وقت پیش کی گئی اس وقت ایوان میں 14 ارکان تھے۔ 104 سینیٹرز کے ایوان میں کورم مکمل کرنے کیلئے 24 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کورم نہ مکمل ہونے کی نہ تو نشاندہی کی گئی اور نہ ہی آئندہ ماہ ریٹائر ہونے والے چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کی صدارت کے وقت اس کا نوٹس لیا۔ البتہ تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر اپنے اپنے الفاظ میں انتخابات کے التوا کی قرارداد پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔
قرارداد کوئی بھی ادارہ دے سکتا ہے اور یہ اس ادارے کی رائے اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ کسی بھی قرارداد کے ذریعے ادارہ اپنے ردعمل، تحفظات، مطالبے، تجویز یا تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ کسی قرارداد پر عمل درآمد کرنے کی نہ تو کوئی قانونی پابندی ہوتی اور نہ یہ فیصلے کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر اس قرارداد کی ضرورت کیوں پیش آئی اور سینیٹر دلاود خان کے پیچھے اصل محرک کون ہے؟
قرار داد میں سکیورٹی کی صورت حال اور موسم کی شدت کی بنیاد پر انتخابات کو ملتوی کرنے کا جواز دیا گیا۔ یہ استدلال پیش کرنے والوں کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہے کہ ملک میں موسم کی سختی اور شدت کے باوجود انتخابات ہوئے، جیسے مئی گرمی کا مہینہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود 2013 کے انتخابات مئی ہوئے۔ اس طرح جولائی میں شدید حبس ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود 2018 کے انتخابات جولائی میں کرائے گئے اور کسی قسم کا جواز پیش نہیں کیا۔ 2008 کے انتخابات جنوری اور 1997 کے انتخابات فروری میں ہوئے۔ اس لیے موسم کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کرانے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔
اسی طرح سکیورٹی کے پیش نظر التوا کی بات کرنے والوں کو 2008 اور 2013 کے انتخابات کو یاد رکھنا چاہیے۔ 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کے قتل کی وجہ معمولی سے وقفہ کے بعد انتخابات کرا دیئے گئے جبکہ 2013 کے انتخابات کے سکیورٹی کی صورتحال تشویشناک تھی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ بار ایوسی ایشن نے چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات کا اظہار کر دیا اور سیدھا چیف الیکشن کمشنر کے مطالبہ کر دیا جو قابل فہم نہیں تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں اس وقت قیادت مسلم لیگ نون کی حمایت سے کامیاب ہوئی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اس مطالبہ کے بعد پھر یہ خدشات سر اٹھانے لگے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوگئے تو پھر انتخابات کیسے ہوں؟ آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہونا ہے لیکن "علامتی ” اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض خود سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون میں شامل ہوچکے ہیں اور 8 فروری 2024 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی طرف سے امیدوار ہیں.
پہلے ہی امید واروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل جس طرح مکمل ہوا ہے اس پر بہت سے تحفظات ہیں اور یہ انتخاب کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان ہے؟ اسی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ میں اپیلیں مسترد کرنے کیخلاف ماضی کی نسبت زیادہ اپیلیں دائر کی گئیں۔ اپیلوں کی تعداد کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز ٹربیونلز نا صرف تعداد میں اضافہ کیا گیا بلکہ ہفتہ وار تعطیل اتوار کے دن بھی ٹربیونلز نے کام کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مطالبہ تو کہیں پیچھے رہ گیا لیکن اس پر ابھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کسی وقت مستعفی ہوسکتے ہیں۔ چیف الیکش کمشنر کے مستعفی ہونے کے بارے میں سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ دوسری طرف یہ رائے بھی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی کی وجہ سے انتخابات کے التوا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان پارلیمان کی حاکمیت بڑے داعی ہیں۔ ابھی ان کی طرف سے سینیٹ کی قرارداد کے بارے میں کوئی ریمارکس سامنے نہیں آئے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس بارے اپنی رائے کا اظہار اُس درخواست کی سماعت کے دوران کریں جو قرار داد منظور کرنے والے سینیٹرز کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ انتخابات سے ہی جمہوریت کا سفر شروع ہوتا ہے ہیں لیکن اس کے باوجود پارلیمان کے ایوان بالا میں ایسی قراد داد پیش کرنے جمہوری اقدار اور پارلیمان کی شان کی نفی ہے۔ اس قرارداد کی کسی صورت تحسین نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک غیر جمہوری رویہ کی عکاس ضرور ہے۔
بقول پروین شاکر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
یہ بھی ایک پہیلی ہے کہ سینیٹ کی غیر ضروری قرار داد اتنی ضروری کیوں تھی؟ انتخابات کو مؤخر کرنے کی کوشش کیوں اور کس کے اشاروں پر ہو رہی ہے؟ اس سوال کا چاہے کوئی بھی جواز تراش لیا جائے وہ کسی صورت آئین کی منشا کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ ایک بات طے ہے کہ آئین پر اُسی طرح عمل ہونا چاہئے جیسے وہ پتھر پر لکیر ہو اور آئین میں انتخابات سے فرار ممکن نہیں ہے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی