Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

فرانس نے نائجر سے سفیر واپس بلانے اور فوجی تعاون ختم کرنے کا اعلان کردیا

Published

on

صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فرانس نائجر سےاپنا سفیر واپس بلا لے گا اور فوجی تعاون ختم کر دے گا۔

مسٹر میکرون نے کہا کہ فرانس نے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے کچھ گھنٹوں میں ہمارے سفیر اور کئی سفارت کار فرانس واپس آجائیں گے

انہوں نے مزید کہا کہ فوجی تعاون "ختم” ہو چکا ہے اور فرانسیسی فوجی "آنے والے مہینوں” میں وہاں سے واپس آ جائیں گے۔

جولائی میں نائجر میں اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی جنتا نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔

نائجر کی نئی فوجی حکومت نے فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق کہا کہ اس اتوار کو ہم نائجر کی خودمختاری کی طرف ایک نئے قدم کا جشن منا رہے ہیں۔

مغربی افریقی ملک میں تقریباً 1500 فرانسیسی فوجی موجود ہیں جوعسکریت پسندوں سے لڑنے میں مدد کر رہے ہیں۔ نائجر میں امریکہ کے بھی ایک ہزار سے زیادہ فوجی ہیں لیکن ان سے نکلنے کو نہیں کہا گیا ہے۔

پیرس کا یہ فیصلہ اپنی سابق کالونی میں دارالحکومت نیامی میں فرانسیسی موجودگی کے خلاف مہینوں کی مخالفت اور احتجاج کے بعد سامنے آیا ہے۔

یہ اقدام ساحل کے وسیع علاقے میں جہادی گروپوں کے خلاف فرانس کی کارروائیوں اور وہاں پیرس کے اثر و رسوخ کے لیے ایک زوردار دھچکا ہے۔ لیکن میکرون نے  فرانس کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس "باغیوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گا

میکرون نے کہا کہ وہ اب بھی نائجر کے معزول صدر محمد بازوم کو، جو اس وقت باغی لیڈروں کی قید میں ہیں، کو ملک کا "واحد جائز حکمران” سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے معزول صدر کو ’یرغمال‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اس بغاوت کے ذریعے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ جرات مندانہ اصلاحات کر رہے تھے ۔

نائجر مغربی اور وسطی افریقہ کی متعدد سابقہ فرانسیسی کالونیوں میں سے ایک ہے جہاں فوج نے حال ہی میں کنٹرول حاصل کیا ہے – نائجر میں فوجی بغاوت برکینا فاسو، گنی، مالی اور چاڈ کے بعد ہوئی ہے۔ تازہ ترین بغاوت اگست میں گیبون میں ہوئی تھی۔

حالیہ برسوں میں اس خطے میں فرانسیسی مخالف جذبات پروان چڑھے ہیں، بہت سے مقامی سیاست دانوں نے پیرس پر نوآبادیاتی پالیسیاں چلانے کا الزام لگایا ہے- اس الزام کی فرانس نے تردید کی ہے۔

روس کے ویگنر گروپ کے ساحل میں بڑھتے ہوئے کردار پر مغرب میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے اور وہ کچھ نئی فوجی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے۔

فرانس کی حمایت یافتہ مغربی افریقی ریاستوں کی علاقائی اقتصادی برادری نے صدر بازوم کو بحال کرنے کے لیے نائجر میں فوجی مداخلت کی دھمکی دی لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

نائجر کے فوجی رہنماؤں نے فرانسیسی سفیر کو 26 جولائی کو صدر بازوم کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا تھا، تاہم 48 گھنٹے کا الٹی میٹم، جو اگست میں جاری کیا گیا تھا، اب بھی برقرار ہے کیونکہ فرانسیسی حکومت نے اس کی تعمیل کرنے یا فوجی حکومت کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مسٹر میکرون کا یہ بیان نائیجر کے بغاوت کے رہنماؤں کی جانب سے "فرانسیسی طیاروں” کے ملک کے اوپر پرواز کرنے پر پابندی کے چند گھنٹے بعد آیا ہے۔

علاقائی فضائی تحفظ کی تنظیم، نے کہا کہ نائجر کی فضائی حدود "تمام قومی اور بین الاقوامی تجارتی پروازوں کے لیے کھلی ہے، سوائے فرانسیسی طیاروں یا فرانس کی طرف سے چارٹر کیے گئے ہوائی جہاز بشمول ایئر فرانس کے پروازوں کے”۔

پیغام میں کہا گیا ہے کہ فضائی حدود "تمام فوجی، آپریشنل اور دیگر خصوصی پروازوں” کے لیے بند رہے گی، جب تک کہ پیشگی اجازت نہ مل جائے۔

ایئر فرانس نے اے ایف پی کو صرف اتنا بتایا کہ وہ "نائیجر کی فضائی حدود پر پرواز نہیں کر رہے”۔

امریکہ نے اس ماہ کے شروع میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنے کچھ فوجیوں کو نیامی سے وسطی شہر اگادیز میں منتقل کر دیا تھا۔ خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا ڈرون اڈہ نائجر میں ہے اور یہ ساحل میں جہاد مخالف کارروائیوں کا اڈہ رہا ہے۔ یہ نائجیرین فوجیوں کو بھی تربیت دیتا ہے۔

اگرچہ امریکہ نے کچھ پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے جنتا کے ساتھ کامیابی سے بات چیت کی، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ انسداد دہشت گردی اور تربیتی کارروائیاں کب دوبارہ شروع ہوں گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین