Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

جنرل ضیاء کے بیٹے کی جمہوریت کو دھمکیاں

Published

on

پاکستان اس وقت جن سنگین سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی بحرانوں سے دوچار ہے ان کی وجوہات تلاش کرنا کچھ خاص مشکل نہیں۔ دنیا میں جن قوموں نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا انہوں نے ترقی کی لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپنے جرم کا اعتراف کرنے کو۔ اس پر مستزاد ہم اپنے جرائم کو نہ صرف جائز قرار دینے پر مصر ہیں بلکہ اس کے جواز تراش کر انہیں قوم کے دل و دماغ پر مسلط کرنے پر بضد ہیں۔

اس تمہید کی وجہ گذشتہ دو روز سے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والا ایک کالم ہے۔ جس میں ملک کے سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجازالحق نے پاکستان میں جمہوریت، جمہوری اداروں اور سیاسی پارٹیوں کو ایک ملفوف دھمکی دی ہے۔ یہ کالم پانچ جولائی کو عین اس روز شائع ہوا جس روز موصوف کے والد نے پاکستان کے آئین کو توڑتے ہوئے جمہوری بساط کو لپیٹ دیا تھا اور ملک میں گیارہ سال طویل مارشل لا نافذ کردیا تھا۔ دہائیاں گذر گئیں ، اس روز ملک میں جمہوری حلقے 5 جولائی کو ضیا مارشل لا کے حوالے سے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس روز اخبارات میں مذمتی آرٹیکلز لکھے جاتے ہیں، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں اور دیگر مختلف اظہاریوں سے اس اقدام کی مذمت کی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی آگے بڑھتی ہے اور اب بھٹو مخالف طبقات بھی آئین کی بالادستی اور مارشل لاؤں کی مخالفت کرتے ہیں جنہوں نے کسی وقت ضیا مارشل لا کو سپورٹ کیا تھا۔ حتیٰ کہ 2006 میں جب نوازشریف نے آئین کی بالادستی کا علم تھامتے ہوئے اپنی سیاست کو ضیائی ورثے سے الگ کرنے کا اظہار کیا تو بینظیر بھٹو بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی کے لئے ایک نئی جدوجہد شروع کی۔ گویا ضیا مارشل لا کے حامی اگر اب کھل کر اس کی حمایت نہیں کرتے تو دفاعی پوزیشن میں ضرور آگئے ہیں کہ وہ اس اقدام کی مذمت کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے۔

لیکن اس سال 5 جولائی کو میڈیا کی حد تک منظر یکسر مختلف نظر آیا۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار جنگ کے ادارتی صفحے پر پانچ جولائی کے حوالے سے ایک ہی کالم شائع ہوا جو کہ ضیا مارشل لا کے حق میں تھا اور وہ تحریر بھی سابق آمر کے بیٹے اعجازالحق کی تھی۔ جبکہ حسب روایت 5 جولائی بطور یوم سیاہ کوئی تحریر نظر نہ آئی۔جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ افسوس کہ اس سانحہ کی براہِ راست متاثرہ فریق پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے اس حوالے سے مکمل خاموشی دیکھی گئی جبکہ نون لیگ سمیت کسی دیگر سیاسی جماعت، تنظیم یا گروپ نے تاریخ میں خود کو درست سمت میں رکھنے کا تکلف گوارا نہ کیا۔ چلیں یہ دونوں جماعتیں تو اقتدار کے جھمیلوں میں الجھی ہوئی ہیں تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف کی کوئی شخصیت 5 جولائی کے اقدام پر اپنی رائے سپرد قلم کرتی۔ اور اپنے آج کے جمہوری بیانئے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو کافی و شافی جواب دیتی۔

میرا شعبہ صحافت بھی ضیاء مارشل لاء سے بری طرح متاثر ہوا۔ سینکڑوں صحافی اس دور آمریت میں پابند سلاسل رہے۔ انہوں نے اپنی پیٹھ پر کوڑے کھائے۔ انہوں نے یہ اذیتیں کسی ایک جماعت یا شخصیت کے لئے نہیں جھیلی تھیں بلکہ ان کا جرم ملک میں آئین کی بحالی اور کروڑوں عوام کے حقوق کے لئے آواز  بلند کرنا تھا۔ میں آج کا یہ کالم بھی اسی لئے لکھ رہا ہوں کہ بطور ایک جمہوریت پسند صحافی ہم خود جمہوریت کے اس مقدمے کے ایک فریق ہیں۔

اس کالم میں اعجازالحق نے اپنے والد کے اقدام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ آئین شکنی کے اس ناقابل معافی اقدام کو جنرل ضیا کی حب الوطنی سے تعبیر کیا۔ اعجازالحق نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی، اس کے خلاف ملک میں اپوزیشن کی تحریک اور بھٹو کے انداز حکمرانی کو ضیا مارشل لا کی تین بڑی وجوہات قرار دیا۔

اعجازالحق کو ایک بیٹا ہونے کے ناطے اپنے والد کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن انہیں یہ آرٹیکل لکھتے وقت کچھ بنیادی سوال اپنے ذہن میں ضرور رکھنے چاہیے تھے جو ان سے کوئی بھی پوچھ سکتا ہے۔ اعجازالحق کہتے ہیں کہ 1985 کی اسمبلی نے ان کے والد کے مارشل لا کو آئینی تحفظ دے دیا تھا اس لئے اس پر مزید بات نہیں ہوسکتی۔ لیکن 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو مارشل لا کا بڑا جواز قرار دینے والے اعجازالحق یہ بھی بتا دیتے کہ 1985 کی جس ربڑاسٹمپ اسمبلی کے ذریعہ جنرل ضیا نے اپنی آئین شکنی کو جائز قرار دلوایا وہ اسمبلی کس طرح وجود میں آئی۔ کیسے ملک میں غیرجماعتی انتخابات کروا کر آزاد ارکان کے ذریعے پارلیمنٹ میں مسلم لیگ نامی پارٹی بنا کر جمہوریت سے ایسا مذاق کیا گیا جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ اور پھر اس کٹھ پتلی اسمبلی سے اپنی مرضی کی آئینی ترمیم بھی کروالی۔

اس سے قبل جنرل ضیا نے ملک میں ایک فراڈ ریفرنڈم کے ذریعہ جس طرح بطور صدر خود کو قوم پر مسلط کیا، صاحبزادے اپنے کالم میں یہ کہانی بھی مختصرا بیان کردیتے۔ بھٹو کے آمرانہ انداز حکمرانی پر شاکی اعجازالحق کو گیارہ سالہ دور میں اپنے والد کے فاشسٹ انداز حکمرانی، اپوزیشن کے خلاف تاریخ کے بدترین مظالم، قوم سے بار بار الیکشن کے نام پر بولے گئے جھوٹ، اسلامائزیشن کے نام پر سوسائٹی کی سیاسی اور اخلاقی تباہی، ڈرگ اور کلاشنکوف کلچر نظر نہ آیا۔

جنرل ضیا نے امریکی ڈالروں کے عوض ملک اور قوم کو افغان جنگ میں ایسا جھونکا کہ چار دہائیاں گذرنے کے بعد ہماری تیسری نسل بھی اس نام نہاد جہادی کلچر کی آگ کا ایندھن بن رہی ہے۔ اعجازالحق نے اپنے والد کے دور اقتدار کے ان جرائم کا ذکر نہیں کیا۔ اور سب سے بڑی بات کہ ملک میں عدلیہ کے ادارے کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کی انتہا ذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل تھا۔ بھٹو کے وجود سے وہ اس قدر خائف تھے کہ اس کے خاتمے میں ہی انہیں اپنی بقا نظر آتی تھی۔ سو انہوں نے اپنے ہینڈ پکڈ ججز کے ذریعے ان کا بہیمانہ قتل کروا دیا۔ جس کی گواہی آج کی سپریم کورٹ نے بھی یہ کہہ کر دے دی ہے کہ بھٹو کو اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔

1977 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں؟ یہ جھگڑا سیاسی جماعتوں کے درمیان تھا اور ان میں کوئی ڈیڈ لاک نہ تھا۔ سیاسی لیڈرشپ ایک دوسرے رابطے میں تھی، مذاکرات ہورہے تھے۔ اور جب مذاکرات کامیاب ہوگئے، معاملات سلجھنے لگے تو جنرل ضیا نے جمہوری بساط لپیٹ دی۔ پروفیسر غفور احمد، نوابزادہ نصراللہ سمیت کئی سیاسی رہنما یہ بات آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں۔ یہ باتیں اعجازالحق کیوں نظرانداز کرگئے؟۔

ایک اور اہم نکتہ پاکستان کے خارجی حالات تھے۔ جن میں پاکستان کے مغربی بارڈر پر افغانستان کی صورتحال تھی۔ جہاں امریکہ نے سوویت یونین کو ایک طویل گوریلا وار میں الجھانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اعجازالحق کیوں نہیں مانتے کہ اس امریکی منصوبے میں ضیاالحق امریکہ کے اصل پارٹنر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آج 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر تشویش کا اظہار کرنے والی امریکی کانگریس گیارہ سالہ دور آمریت میں گنگ رہی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان میں ضیا کی آئین شکنی، سیاسی کارکنوں کی پھانسیوں، کوڑوں، قید و بند کی صعوبتوں، 1985 کے بدترین انتخابات اور میڈیا پر بدترین قدغنوں پر نہ تو کوئی قرارداد لانے کا سوچا، نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی پابندیاں عائد ہوئیں بلکہ پرائی جنگ میں اپنے جوان بیٹوں کا خون بیچنے کے بدلے میں امریکی ڈالروں کی ریل پیل کردی گئی۔ کالے دھن، ڈرگ کلچر اور سیاسی کرپشن کو ایسا عروج دیا کہ ملک کا سوشل فیبرک ہی تباہ کر ڈالا۔
یہ چند مختصر معروضات تھیں جو جناب اعجازالحق کو پیش کرنا تھیں جن کے اندر 5 جولائی کو اپنے والد کی روح بھرپور انداز سے عود کر آئی۔ اور انہوں نے اپنے کالم کی آخری لائنوں میں اپنے والد کے ہی لہجے میں ایک بار پھر ملک میں جمہوری اداروں اور جمہوری قوتوں کو کھلے الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے معاملات ٹھیک کرلیں ورنہ جمہوری بساط پھر لپیٹ دی جائے گی۔
اعجازالحق صاحب ! آپ جمہوریت کے دکھ میں دبلے نہ ہوں۔ آپ کو خاموشی سے ایک حلقے سے منتخب ہونے کا موقع مل جاتا ہے یا دے دیا جاتا ہے۔ بس آپ چپ چاپ رکن اسمبلی کی مراعات کا لطف اٹھائیں، نہ تو اس وقت ہمارے اداروں میں کوئی آپ کے والد کے نقش قدم پر چلنے پر فخر محسوس کرے گا اور نہ ہی موجودہ سیاسی لیڈرشپ میں سے کوئی اب کسی غیرآئینی اقدام کو کندھا فراہم کرنے کی جرات کرے گا۔ پاکستانی قوم اور یہاں کی سیاست آگے بڑھ چکی ہے۔ اورآپ ابھی تک 5 جولائی 1977 کی تاریخ میں جی رہے ہیں ۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔  یوم سیاہ ہے

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین