ٹاپ سٹوریز
مزید مذاکرات کے لیے مہلت کی حکومتی درخواست، تحریک انصاف مذاکرات سے دستبردار، الیکشن کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا کہ سولہ مئی کو الیکشن کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد کرا سکتے ہیں لیکن ہم ابی اس طرف جانا نہیں چاہتے۔ عدالت عظمیٰ نے تمام فریقوں کا موقف سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سبراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ تھے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے اور فاروق نائیک مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے۔
فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ان کی طرف سے ایک متفرق درخواست دائر کی گئی ہے، مذاکرات چیئرمین سینٹ کے دفتر میں ہوئے۔ چیئرمین سینٹ نے مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
فاروق نائیک نے بتایا کہ مذاکرات کے پانچ ادوار میں حکومتی اتحاد نے موجودہ ملکی معاشی حالات سے تحریک انصاف کے وفد کو آگاہ کیا۔ آئی ایم ایف مذاکرات سے بھی آگاہ کیا۔ تحریک انصاف نے معاشی حالات پرحکومتی موقف کو تسلیم کیا۔حکومتی اتحاد نے اگست میں اسمبلیاں تحلیل کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا۔فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ایک ہی دن ملک میں انتخابات ہوں،سندھ اسمبلی میں مدت پوری کرنے کی قرارداد بھی منظور کی جاچکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے جواب سے لگتا ہے کہ کچھ حد تک مذاکرات کامیاب ہوئے،سیاسی معاملات سیاستدانوں کو حل کرنے چاہئیں،آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی بجٹ اس وقت بہت اہم ہیں۔
فاروق نائیک نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی نہیں ہوگی تو بجٹ پاس نہیں ہوگا،پنجاب اورخیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو آج یہ مسائل نہ ہوتے۔
عوامی مفاد میں مذاکرات کی بات تسلیم کی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے جواب میں آئی ایم ایف کا ذکر ہے،حکومت نے بتایا کہ قرضے بیرون ملک سے ملنے ہیں،حکومت بیرونی قرضوں کو کہاں لگانا چاہتی ہے،اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو آئین چارماہ کا وقت دیتا ہے، بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے مطابق بنے گا،آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو مانا یا رد کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں 90 روز میں انتخابات سے کوئی انکاری نہیں،حکومت کہتی ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ انتخابات 90 روز میں نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ عوامی مفاد کیلئے کام کرنا چاہتی ہے،سپریم کورٹ آئین کا تحفظ چاہتی ہے، ہم نے عوام کے مفاد کے لیے مذاکرات کی بات تسلیم کی۔فریقین ٹی وی پرایک ہی دن انتخابات پر راضی نظر آئے،اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا فیصلہ موجود ہے، ہمیں بتایا جائے کہ کب تک مذاکرات ہوسکتے ہیں۔وقت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔سپریم کورٹ صرف اپنا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہے۔
کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا خیال نہیں رکھا گیا، ہم غصہ نہیں کرتے،سپریم کورٹ احترام سے بات سن رہی ہے۔ چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں ججز کے بارے جو ہورہا ہے اس کو خود آپ لوگ درست کریں،ہم نے خاموشی سے احترام سے سب باتیں برداشت کر رہے ہیں۔
حکومتی بائیکاٹ پر پر ہم نے بھی کہہ دیا السلام علیکم، چیف جسٹس
فاروق نائیک نے کہا کہ پنجاب میں پہلے انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات کوئی تسلیم نہیں کرے گا،دیکھا جائے کہ 23 فروری سے لیکر آج تک حکومت کا کیا رویہ رہا،سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا، حکومتی بائیکاٹ کے بعد ہم نے بھی السلام علیکم کہہ دیا۔حکومت نے سنجیدگی سے کیس چلایا ہی نہیں، تین اور چار کے فیصلے میں پڑے رہے اور آج تک یہی کیا جا رہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیوں کی بحالی کی اہم بات کی تھی،اسمبلیوں کی بحالی سے متعلق کوئی دلائل نہیں دیئے گئے،حکومت کی سنجیدگی یہ ہے کہ ابھی تک نظرثانی درخواست دائر نہیں کی،حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے،ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چھ فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیئے،یہ بہت بڑا نقصان ہے،معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سیکورٹی کا اہم مسئلہ ہے،اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا؟ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کی پابند ہے،ہم نے صرف اللہ کو جواب دینا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے ساتھ ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے،نوے روز میں الیکشن پر عدالت فیصلہ دے چکی، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرا سکتے ہیں لیکن ہم اس طرف جانا نہیں چاہتے،کل رات ٹی وی پرفریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا،ایک ہی دن انتخابات پر دونوں فریقین نے رضامندی ظاہر کی،حکومت ان مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کیلئے استعمال نہ کرے،سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کو عمل کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے میری جماعت کے ساتھ ماضی میں زیادتی کی، سعد رفیق
مسلم لیگ ن کی طرف سے خواجہ سعد رفیق پیش ہوئے، چیف جسٹس نے انہیں خوش آمدید کہا۔ خواجہ سعود رفیق نے کہا کہ وہ وکیل نہیں، اس لیے شاید اس انداز میں بات نہ کرسکیں۔خواجہ سعد رفیق نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ معذرت کے ساتھ یہ کہیں گے کہ دو ہزار سترہ میں سپریم کورٹ نے ان کی جماعت کے ساتھ زیادتی کی،خود ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے،مذاکرات میں حکومت نے لچک دکھائی مگر دوسرے فریق نے لچک نہیں دکھائی،آئین 90 روزمیں انتخابات کا کہتا ہے مگر صاف شفاف انتخابات کا بھی کہتا ہے،پنجاب میں پہلے انتخابات سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے،انتخابات کے معاملے پر ہی پہلے آدھا ملک گنوا چکے ہیں۔ایک صوبے کا انتخاب ہونا تباہی لاسکتا ہے۔ انیس سو اٹھانوے میں کے سیلاب اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے واقعات پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔حکومت انتخابات ایک ہی دن کرانے کیلئے تیار ہے۔
آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر
خواجہ سعد فریق نے عدالت سے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق نظرثانی کی درخواست ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ وہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جا رہی ہے اور اٹارنی جنرل کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ ہماری اس کیس سے جان چھڑائیں گے تو ہم دوسرے کیس سنیں گے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل بھی کر دیں تو نومبر تک انتخابات ہونگے، سیاسی معاملات میں عدالتوں کے الجھنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں،ہماری سیاسی تاریخ زخموں سے چور چور ہے، مشرف،ضیا اور پچھلا نقاب پوش مارشل لا بھی گزر گیا تو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ ابھی اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے،بڑی بڑی جنگوں میں بھی انتخابات ہوئے ہیں، ترکی میں زلزلے کے باوجود انتخابات ہوئے،ہم ایک بھی مدت سے اوپر اسمبلی نہیں چلائیں گے۔
ہم از خود نوٹس لینا چھوڑ چکے، چیف جسٹس
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو باتیں ابھی عدالت کو بتائیں جارہی ہیں وہ لکھ کر دی جاسکتی تھیں،انتخابات کیلئے فنڈز دے دیئے جاتے باقی سیکورٹی کا بتا دیا جاتا۔سیکورٹی سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ بھی دی گئی،آٹھ اکتوبر تک حالات درست ہونے کی گارنٹی کون دے گا؟ اگست تک حکومت کی مدت ہے تو اکتوبر میں پھر انتخابات ہونگے،بجٹ تو مئی میں بھی پیش کیے گئے۔لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے،ہم سنتے رہے ہیں کہ جون سے پہلے بجٹ ہوئے،آپ نے ہمیں از خود نوٹس لینے کا کہا ہم از خود نوٹس لینا چھوڑ چکے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے عدالت کے سامنے وضاحت کی کہ انہوں نے ازخود لینے کا بالکل نہیں کہا،ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر کوئی بات ان کی جانب سے کہنے سے رہ گئی تھی تو عدالت اس کو سمجھ سکتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک و قوم کی خاطر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سعد رفیق نے جواب دیا کہ تین نکات پر اتفاق ہوچکا ہے تو چوتھے نکتہ پر بھی اتفاق ہوجائے گا،
سعد رفیق نے مذاکرات کے لیے مزید مہلت طلب کی اور کہا کہ ان کی درخواست ہے سپریم کورٹ کوئی ہدایت یا حکم نہ دے۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ عدالت کسی قسم کی ہدایت جاری کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تاہم فریقوں کو سننے کا اختیار رکھتی ہے۔ آج جمعہ ہے مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کر دیا جائے،مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔
وزیراعظم اور عمران خان کو ویڈیو لنک پر سننے کی استدعا مسترد
الیکشن کمیشن کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر بتایا کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست آچکی ہے،حکومت کو بھی نظرثانی دائر کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے درخواست کی کہ وزیراعظم شہبازشریف اورعمران خان کو ویڈیو لنک پر سنا جائے۔ ان دونوں رہنماؤں کو سننے سے جلد حل نکلے گا۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ وزیر اعظم یا عمران خان مصروف لوگ ہیں،ان کے نمائندے یہاں موجود ہیں،ہم صرف کالے کوٹ والوں کو سننا پسند کرتے ہیں،یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نظر ثانی درخواست کا حق رکھتا ہے۔ عدالت نے شہباز شریف اور عمران خان کو ویڈیو لنک پر لینے کی استدعا مسترد کردی۔
ہم مذاکرات سے پیچھے ہٹ چکے، شاہ محمود قریشی
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ تکبر کر رہے ہیں،حکومتی کمیٹی کے مذاکرات سے متعلق جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ کیا اگلے دو تین روز میں کوئی حل نکل سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ میری جماعت نے مجھ پر تنقید کی کہ مذاکرات کیلئے تین روز کی مہلت کیوں دی، عمران خان ناراض ہوئے کہ تین دن کیوں دیئے پوری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے،حکومت نظر ثانی درخواست اگر دائر نہ کرے اور مذاکرات کامیاب نہ ہوں پھر کیا ہوگا،مالی مشکلات کا ہمیں علم ہے مگر آئی ایم ایف سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے،پاکستان اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہے۔
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ تحریک انصاف مذاکرات چاہتی ہے یا نہیں؟ اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف مذاکرات سے پیچھے ہٹ چکی ہے،حکومت کی ہر بات ہم نے مانی مگر ہماری ایک بھی بات نہیں مانی گئی،
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیا ہمیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت چبھ رہی تھی،پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت چھوڑ کر جو بیتی وہ ہمیں پتا ہے،ہمارے کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے،وزیر قانون نے مذاکرات کے دوران 3 اور 4 کے فیصلے کی بات کی۔تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے حکم کی پاسداری کی۔ حکومت کیساتھ مزید بیٹھے کا کوئی راستہ نہیں۔
تمام فریقوں کے سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس کیس میں اپنا مناسب حکم جاری کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی ججز کمرہ عدالت سے اٹھ گئے۔کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین6 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
پاکستان7 مہینے ago
پنجاب حکومت نے ٹرانسفر پوسٹنگ پر عائد پابندی ہٹالی