Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

سائفر سے خارجہ تعلقات کیسے خراب ہوئے، شواہد کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

Published

on

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے اسپیشل پراسیکیوٹر سےاستفسار کیا کہ سائفر سے خارجہ تعلقات کیسے خراب ہوئے؟ کیا کسی بیرونی طاقت کو اس سے فائدہ ہوا ہے؟ خارجہ تعلقات خراب ہوئے تو کسی کے کہنے سے خراب تو نہیں ہوں گے؟ اسپیشل پراسیکیوٹر کے دلائل آج بھی مکمل نہ ہوسکے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی،عدالت نے حامد علی شاہ کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکلا سلمان صفدر اور دیگر جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی، نعیم اقبال اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے ڈیجیٹل شواہد، دستاویزی شواہد اور ان کے اثرات سے متعلق چار عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ پہلا جرم یہ ہے کہ سائفر کو پبلک کیا، دوسرا جرم یہ کہ سائفر کی کاپی سوشل میڈیا پر لیک کی گئی
اور تیسرا جرم یہ ہے کہ سائفر پبلک کرنے سے خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچایا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اپ کی ساری باتیں مان لیتے ہیں صرف اتنا بتائیں کہ جرم کیا ہوا ہے؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ خفیہ دستاویزات کو پبلک کرنے پر بیرونی طاقتوں کو فائدہ ہوا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کس بیرونی طاقت کو ان سے فائدہ ہوا ہے؟ امریکہ کے ساتھ تعلقات خرابی کے شواہد کیا ہیں؟ کیا آپ نے شواہد میں ڈی مارش پیش نہیں کیا؟ڈی مارش کوئی خفیہ دستاویز تو نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے شاہ صاحب آپ نے ایک بندے کو ساری عمر کے لیے جیل میں ڈال دیا ہے،
سوائے ایک خاتون کے واٹس ایپ میسج کے علاوہ شواہد کہاں ہیں؟ کہاں ہیں وہ دستاویزات جس میں ثابت ہو کہ ہمارے تعلقات خراب ہوئے؟ انہوں نے ہمارے طلباء کو ملک بدر کیا ہو، سفارتی یا کاروباری تعلقات ختم کیے ہوں تو بتائیں؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جو بیانات آپ دے رہے ہیں وہ سیاسی مخالفین کے بیانات ہیں،
کم آن سر، یہ سیاست ہے۔ سیاسی مخالفین نے تو یہی کہنا ہے نا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ قانون میں واضح ہے کہ خفیہ دستاویزات کو کہیں بھی ڈسکس نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کو نہیں دے رہے تو ٹھیک، مگر عدالت کو تو دے سکتے ہیں، اگر ہم سائفر مانگ لیں تو؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ دستاویز صرف عدالت کو دکھانے کے لیے لا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت اس دستاویز سے متعلق فیصلے میں نہیں لکھ سکتی تو پھر کیا ضرورت ہے؟
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو جواب الجواب دلائل کل پندرہ منٹ میں ختم کرنے کی ہدایت کی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین