Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین مقدس پر عمل کرنا لازم ہے، چیف جسٹس

ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل

Published

on

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا؟ خریدنا تو ضروری ہے ناں، آئین مقدس ہے، اس پر عمل کرنا لازم ہے آپشن نہیں۔

مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا ہے کہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے نہ تو مخصوص لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا، اگر کوئی جماعت فہرست نہ دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتی۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی کے انتخابات میں ن لیگ، پیپلز پارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہیں لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018ء میں ہوا، اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پربات کر لیں گے، مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئے گا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرے گی، 2 فروری 2024ء والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کا غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی سماعت کی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے سوال کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ان پر ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں چیئرمین کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار انتخابات لڑے، جمعیت علمائے اسلام ف میں بھی اقلیتوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کر دے گا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا، الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب! اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کاغذاتِ نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذاتِ نامزدگی پیش کر دیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ حامد رضا کے کاغذاتِ نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔

اس کے ساتھ ہی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا اور کہا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیا گیا، کاغذاتِ نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہے، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرے گا کہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حامد رضا نے سنی اتحاد کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی نہیں جمع کروائے؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ حامد رضا کو ٹاور کا نشان دیا گیا، سنی اتحاد کونسل کا نشان گھوڑا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ حامد رضا کو گھوڑے کا نشان کیوں نہیں ملا؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے زبردستی ٹاور کا نشان حامد رضا کو دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے دوبارہ کہا کہ آپ دستاویزات کیوں جمع نہیں کروا رہے؟ ہم سوال ہی نہیں پوچھتے آپ سے پھر، ایسے نہیں چلے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کے حکمِ امتناع پر اضافی مخصوص نشستوں پر ارکان کی رکنیت معطل ہو گئی، انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست دینے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر مخدوم علی خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرپرائز کی بات ہے کہ سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائی کورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلاء نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفافیت سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی ہے، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، اسی سبب خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی، جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جا سکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کر دے گا، پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا، سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزاد امیدوار شامل ہوئے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں، آزاد امیدوار 3 دن میں کسی جماعت میں شامل ہوں تو انہیں مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہو گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الحال حامد رضا کا خط ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے سنی اتحاد کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں سنی اتحاد نے یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون واضح ہےکہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کی لسٹ پر انحصار کرتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ ن لیگ کو مخصوص نشستیں ملیں، آپ کو نمبر کیسے ملا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں جمع کروائی گئی لسٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ خود کو کاغذاتِ نامزدگی میں پی ٹی آئی کا بتانے والوں کو الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوار کیسے کہا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آزاد امیدواروں نے پہلے تحریکِ انصاف نظریاتی ظاہر کیا اور پھر کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ تحریکِ انصاف نظریاتی پارٹی ہے؟ ان کا بتائیں جو پی ٹی آئی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریکِ انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کر دیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے۔

جسٹس یحییٰ نے کہا کہ کسی امیدوار سے زبردستی نہیں کی جا سکتی کہ نوٹیفکیشن کے 3 روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت جوائن کر لے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے آزاد ہونے کا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد آزاد امیدواروں کے پاس کوئی چوائس باقی نہیں رہی، الیکشن کمیشن کا امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی نہ ماننا اور آزاد ظاہر کرنا ہی اصل تنازع ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوان نے سوال کیا کہ کسی امیدوار نے کاغذاتِ نامزدگی کے بعد کہا کہ میں واپس لے رہا ہوں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عدالت کے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے کوئی امیدوار کھڑا کیا، نہ مخصوص نشستوں کی فہرست دی۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ثابت ہو گئے تو مختلف معاملہ ہو جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی کسی جماعت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے پھر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کا ٹکٹ دے کر دوسری جماعت میں شامل ہو جائے تو اسے منحرف ہونا کہیں گے، میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہو گا کہ کون کس جماعت سے ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت ہے اور سب کے سامنے ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کر کے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد کہہ سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریکِ انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس پر بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے، برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوامی حقِ رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے پہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریکِ انصاف کیوں نہیں سامنے آ رہی؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا، ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن نے کیسے کہہ دیا کہ امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس تو ایسا اختیار نہیں، امیدواروں نے خود کو تحریکِ انصاف سے الگ نہیں کیا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ سب سے اہم ووٹ کا حق ہے، انتخابات صاف شفاف ہونے چاہئیں، سوالات بہت سنجیدہ اٹھے ہیں، انتخابات کے طریقہ کار پر ہی سوالات اٹھے ہیں، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ کوئی سیاسی انجینئرنگ نہ ہو، اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ تحریکِ انصاف اور تحریکِ انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟ کبھی تحریکِ انصاف ہوجاتی، کبھی تحریکِ انصاف نظریاتی ہو جاتی ہے، فرق بتائیں؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ تحریکِ انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جا رہا ہے؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہر کیا؟ کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ الیکشن سے متعلق بات کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت بدلنے والا نااہل تصور ہو گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا مؤقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولا سمجھائیں، یہ فارمولا کیا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا نہیں کی۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟ فرض کریں کہ سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہئیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دے یا انتقال کر جائے تو ایسا تو نہیں کہ پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دے گی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہو جائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی ٹریٹ کیا گیا تھا، تمام سیٹیں بانٹ دی گئی تھیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ سوال یہی ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریکِ انصاف ہمارے سامنے نہیں، وہ تو سنی اتحاد کو سپورٹ کر رہی ہے، کیس سنی اتحاد کا ہے، تحریکِ انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیاکہ اگر 86 آزاد امیدواروں سے آپ کو فائدہ ہو گا تو کس تناسب کے ساتھ ہو گا؟

عدالتِ عظمیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو مکمل ہونا ضروری ہے؟ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں جیتی ہوئی سیٹوں کے حساب سے ہی ملیں گی، جیتی ہوئی سیٹوں سے زیادہ کسی جماعت کو سیٹیں کیسے مل سکتی ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کو ممبران سے جلد سے جلد مکمل ہونا چاہیے،مخصوص نشستوں کے تناسب میں آزاد امیدوار شامل نہیں، سیاسی جماعتوں پر انحصار ہے، اگر کوئی جماعت فہرست نہ دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتی، اسمبلی کا مکمل ہونا لازمی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اسمبلی کی نشستوں اور ارکان میں فرق ہوتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے، متناسب نمائندگی کے اصول میں آزاد جیتنے والے شامل نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب آپ اصول کی بات کرتے ہیں تو آئین کا حوالہ بھی دیں، آرٹیکل 5 کے تحت ہر شخص آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے، کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے تو سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین مقدس ہے، اس پر عمل کرنا لازم ہے، آپشن نہیں، تاریخ کی بات کرنی ہے تو پوری طرح سے کریں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آج بھی آئین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ عدالت بھی اس سب میں ملی ہوئی ہے، بطور سپریم کورٹ ہم نے اپنے سر ریت میں دبا لیے ہیں، سب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم ماضی کی بات کر رہے ہیں، ایک دن ہمیں کہہ دینا چاہیے کہ بہت ہو چکا، آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ میں اہم ترین درخواست 8 فروری کے انتخابات سے متعلق ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی کیسز نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی غلطیاں ہم سب کو تسلیم کرنی چاہئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایک کپ چائے کا وقفہ کر لینا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں، سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے کوئی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، انتخابات میں شریک جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ دینا ہوتی ہیں، سنی اتحاد نے کیس بنایا، سنی اتحاد نے نہیں بتایا کہ کیوں انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

جسٹس منیب اختر نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ انتخابات میں منتخب ہونے کے کیا معنی ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ دینا ہوتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ہر انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے، سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے، آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دیناضروری ہے، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر اور سینیٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے، کیس میں لگ رہا ہے جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں الیکشن ہو رہا ہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرنا ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزاد امیدوار شامل نہیں ہو سکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتیں شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائے گی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا؟ خریدنا تو ضروری ہے نا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرِ التواء ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواستیں کیوں زیرِ التواء ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہ دے تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رہے گی؟ انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیت سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ یعنی جو لسٹ نہیں مہیا کرتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سیاسی جماعت کا انتخابات کے بعد لسٹ دینا مزید غیر جمہوری ہو جائے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی، قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں،آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ملتیں، اب جب سنی اتحاد کونسل نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہو گئیں۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدوار نےایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا ہے جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی پر بات ضروری ہے، اقلیتیں اور خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے، دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہی میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کا کہہ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتیں بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آ کر بیٹھیں، اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے۔

جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ اقلیتوں، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، ماضی کے انتخابات میں ن لیگ، پیپلز پارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہیں لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018ء میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پر بات کر لیں گے، مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئے گا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرے گی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے لسٹ دی، نہ انتخابات میں حصہ لیا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 2 فروری 2024ء والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کا غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کر دینا چاہیے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات کا بائیکاٹ کر لیتی ہے، کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟

اس کے ساتھ ہی مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہو گئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا ہے جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتی ہیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی ہے، مخصوص نشستوں کا بھی نوٹیفکیشن ہوتا ہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے، ریٹرننگ افسران مخصوص اور جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتےہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ فارم 66 پر مشتمل مخصوص نشستوں سے متعلق سیاسی جماعتوں کی جانب سے لسٹ آتی ہے، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بالکل ایک طرح کا ہے، کاغذاتِ نامزدگی پہلا اسٹیج ہوتے ہیں، خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشستوں سے وزیرِ اعظم کے لیے امیدوار بھی سامنے آ سکتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین