ٹاپ سٹوریز
مارشل لا لگے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، پارلیمان کچھ کرے تو حلف یاد آ جاتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ مارشل لاء لگے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آتا ہے۔کیا آپ اگلے مارشل لا ءکا دروازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لےکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر ہو گا، اختیارات کو کم نہیں بانٹا جا رہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہو گا۔ چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسا نہیں سمجھتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئروکلا ہیں، سب کو سنیں گے۔
درخواست گزاروں کے وکلا نے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد جواب الجواب دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں
ایک درخواست گزار کے وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ اس قانون کے تحت عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا تاہم انھوں نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ یہ قانون آئین سے کیسے متصادم ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے آئین کی نفی کی گئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر یہ قانون آئینی ترمیم کے ذریعے بن جاتا تو تب بھی یہ آئین کی نفی ہوتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے اس کا جواب تو نہیں دیا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ قانون ایک فرد واحد کے لیے بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ ادارے ہیں۔ جس شخصیت کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کو آپ نے فریق ہی نہیں بنایا۔
لگتا ہے خبریں پڑھ کردلائل دے رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نہ آپ عوامی نمائندے ہیں اور نہ ہی یہ ججز منتخب نمائندے ہیں لہٰذا سپریم کورٹ کے فورم کو سیاسی تقاریر کے لیے استعمال نہ کریں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ پوری قوم کی بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ یہ دلائل اخباری خبریں پڑھ کر دے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ بتائیں کہ کیا یہ قانون سازی لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ قانون سازی چیف جسٹس کے اختیارات کی تقسیم سے متعلق ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ قانون سازی نہ صرف عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرے گی بلکہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی ورکنگ کو بھی ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پارلیمنٹ نے ماورائے آئین قانون سازی کی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل اکرم چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتحال دیکھنا بھی ضروری ہے۔پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے؟
اکرم چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے سپیکر کو تحریری طور پر کارروائی کے ریکارڈ کے لیے درخواست کی؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں۔ اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کے لیے درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں، آپ نے خود سپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر بے بنیاد دلیل سنے۔
وکیل اکرم چوہدری نے کہا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کو سلب کیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار تو ہے لیکن اس طرح کی قانون سازی کا نہیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس قانون سازی سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں جس کے بارے میں درخواست گزار کے وکیل عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے ایک اور درخواست گزار کے وکیل محمد عرفان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بینچز کی تشکیل سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ ہے اور سپریم کورٹ جیسے چاہے اپنے اختیارات کو تقسیم کر سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ایک سو اکانوے میں سپریم کورٹ کے اختیارات کے استعمال کا واضح ذکر ہے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا سکتی ہے تو پھر اس طرح کی قانون سازی کی کیا ضرورت تھی۔
سماعت میں وقفہ
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پردرخواست گزار کے وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اس ایکٹ سے پٹیشنر کے حقوق متاثر ہوں گے کیونکہ اگر وہ ازخود نوٹس کے متعلق کوئی درخواست دیتا ہے تو پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ کی تین ججزپر مشتمل کمیٹی کے پاس جائے گا جو کہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے گی جس سے وقت کے ساتھ ساتھ انصاف میں تاخیر کا احتمال ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی بنیادی حق ہے اور انصاف تک رسائی یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر فورم آزاد ہوں۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدلیہ کی آزادی سے متعلق کوئی قانون بن گیا تو کیا یہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہو گی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے فائدے اور نقصان کو چھوڑیں صرف یہ بتائیں کہ کیا اس قانون سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔محض مفروضوں پر بات نہ کریں بلکہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مطمئن ہیں کہ سپریم کورٹ جو بھی کرے تو وہ ٹھیک ہوگا تو درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ مطمین ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں تو سپریم کورٹ نے ایک ڈکٹیٹر کو آئین کو روندنے کا اختیار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے آئین کے برعکس فیصلے دیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اس قانون کے تحت اپیل کا حق دیا گیا تو کیا اس سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو سکتی ہے؟
جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت آپ کی صحت پر کیا اثر پڑا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ملک میں مارشل لگتے رہے ہیں تو کمرہ عدالت میں لگی ہوئی تصاویر والے حضرات سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ ملک میں نیا مارشل لا لگوانا چاہتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جب بھی کوئی نیا چیف جسٹس آتا ہے تو سپریم کورٹ کی ڈائریکشن تبدیل ہو جاتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس وقت آئین بنایا گیا تو اس وقت آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا ترمیم کرکے اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آئین کا آرٹیکل ایک سو اکانوے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی سے روکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر آئین میں کوئی قدغن نہ ہو تو سپریم کورٹ اپنے لیے نئے رولز بنا سکتی ہے۔
ملک کو فرد واحد نے تباہ کیا، چیف جسٹس
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اس ملک کو فرد واحد نے تباہ کیا ہے، چاہے وہ مارشل لا ہو یا کوئی اور۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر میں انصاف کی فراہمی میں پاکستان کی عدالتیں کہاں کھڑی ہیں، اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہو رہی۔ صرف اس بارے میں درخواستیں دائر کی جارہی ہیں کہ کہیں چیف جسٹس کے اختیارات کم نہ ہو جائیں۔
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین آئین کے اندر نہیں تو ان کا کیا ہوگا۔ آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے ان کو شامل نہیں کیا جاسکتا؟
درخواست گزار کے وکیل عزیز بھنڈاری نے موقف اختیار کیا کہ سپیشل ٹریبونل بنائے گئے ہوں تو ان کیخلاف اپیل دی جا سکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں کچھ موضوعات پر قانون سازی کا حق دیا گیا ہے، آرٹیکل 191 میں قانون سازی کا اختیار کہیں نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو آرٹیکل 191 میں قانون کے تابع رولز بنانے کے الفاظ غیر موثر ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟ پی ٹی آئی نے اپنا موقف پارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا؟
اس پر وکیل عزیز بھنڈاری نے جواب دیا کہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا۔ وکیل عذیر بھنڈاری نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ ماضی میں از خود نوٹس کا غلط استعمال ہوا اور اب اگر پارلیمان نے محسوس کیا ہے کہ اس بارے میں اپیل کا حق دینا چاہیے اور اس بارے میں قانون سازی کی تو اس میں حرج کیا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ان کے پاس دنیا بھر میں ایسی کوئی مثال موجود ہے اگر عدالت نے کوئی فیصلہ دیا ہو اور اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل بھی نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرتی تو کیا سپریم کورٹ کے پاس ازخود نوٹس پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار ہے تو اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تو پھر اس قانون پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں؟ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر چیف جسٹس نے ایک فیصلہ کر لیا تو مطلب اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے درست نہیں ہو سکتے لیکن اگر ہر کیس میں اپیل کا حق دے دیا جائے تو ہر بندہ اپیل لیکر آجائے گا۔
اس دوران وکیل کی جانب سے امریکی عدالت کی مثال دیے جانے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکہ میں تو غلامی بھی تھی، خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا، تو ہم امریکہ سے زیادہ متاثر کیوں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ امریکہ کی عدالت میں ازخود نوٹس کا بھی تصور نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس سے اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ اپیل کا حق دینے میں بااختیار ہے لیکن دینے کا طریقہ کار کیا ہو یہ اصل مسئلہ ہے۔
بطور سیاسی جماعت آپ کو گھبراہٹ کیوں ہے؟ چیف جسٹس
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت کے طور پر ایکٹ سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟‘ اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی اداروں کو اپنے رولز بنانے کا حق حاصل ہے، عدلیہ پارلیمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز مجھے فل کورٹ اجلاس بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاؤں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے، چیف جسٹس کے غیر مناسب ۔کنڈکٹ بارے کون کچھ کہہ سکتا ہے،جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں، چیف جسٹس رولز کے تحت ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال اٹھایا کہ مجوزہ قانون کے تحت تین رکنی کمیٹی بن گئی تو کیا ججز کے درمیان برابری کا اصول ختم نہیں ہو جائے گا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ ممکن ہے کل پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو پارلیمان کے ویژن کو کیوں چیلنج کر رہی ہے؟ اس پر تحریک انصاف کے وکیل نے موقف پیش کیا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو پریکٹس اینڈ پروسیجر سے اچھا قانون آئینی طریقے سے بنائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بطور سیاسی جماعت اپ کو گھبراہٹ کیوں ہے، اپیل کا حق ملنے سے ہو سکتا ہے آپ کو فائدہ ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے بطورِ چیف جسٹس کہا جائے کہ رولز بنانے کے لیے فل کورٹ میٹینگ بلا لیں میں انکار کر دوں تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نا قابل احتساب کیسے ہو سکتا ہے، اگر میرا کنڈکٹ بہت زیادہ نا قابلِ قبول ہو جائے تو کیا ہو گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مدت ملازمت کی ریٹائرمنٹ بھی ہے۔ اگر کسی کا کنڈکٹ نا قابلِ قبول ہے تو وہ چلا جائے گا۔
پی ٹی آئی وکیل نے موقف اپنایا کہ اگر نا قابل قبول کنڈکٹ ہو تو اس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھی ہے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین6 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی