Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

عدلیہ پر حملہ ہوا تو سب سے آگے کھڑا ہوں گا، جب چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تب سارے وکیل کہاں تھے، چیف جسٹس

Published

on

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججزکے خط پر سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس پر سماعت کررہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، اس وقت سارے وکلا کہاں تھے، عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، کم ازکم میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نےلاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے۔

جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، ہمیں پرانے طرز عمل ختم کرنے ہوں گے، اپنی اصلاح پہلے کریں پھر دوسروں کی کریں، پہلے چیمبرمیں آکر کیس لگ جاتے تھے، ہم نے سب پرانی چیزیں ختم کردی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں کسی کے دباؤ میں نہیں آتا، فیصلوں کو دیکھ کر ہرآدمی اپنی رائے دیتا ہے، اکثر دیکھتا ہوں کہ وکیل ازخود نوٹس کے مطالبے کر رہے ہیں، جو وکیل کہے ازخود نوٹس لیا جائے اسے وکالت چھوڑی دینی چاہیے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ عدالتوں کو مچھلی بازار نہیں بنانا چاہیئے، پاکستان میں درجنوں بار ایسوسی ایشننز ہیں، ہم سپریم کورٹ سے ہیں۔ ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہوتا ہے، بار کونسل کے لوگ بھی منتخب ہیں،جمہورت کا تقاضا ہے اس کو بھی مان لیں جو آپ کا مخالف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طور پر ملتا ہی نہیں ہوں، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، سماعت کا ابھی آغاز کیا ہے، سب چیزوں کو دیکھیں گے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پرو سیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں بھی کیس میں سنا جائے۔

جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طے کرتی ہے، کمیٹی نہ عدالت کا اختیار استعمال کرسکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 26 تاریخ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط موصول ہوا، اسی دن افطار کے بعد چیف جسٹس سمیت تمام ججز سے ملاقات ہوئی، ڈھائی گھنٹےکی ملاقات میں سینئر جج جسٹس منصور شاہ بھی موجود تھے، جوڈیشری کی آزادی کے معاملے پر زیرو ٹالرینس ہے، ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں، یہ دیکھنا ہے کس رفتار سے کام ہو رہا ہے، سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آزاد عدلیہ پر کوئی بھی حملہ ہوگا تو سب سے آگے میں کھڑا ہوں گا، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو صدر سپریم کورٹ بار بن جائے یا چیف جسٹس، لیکن اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، کسیز فکس کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے، میرے آنے کے بعد 18 دسمبر کو فل کورٹ کی پہلی میٹنگ کی، اس سے قبل 4سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، کہاں تھے سارے وکیل، ادارے کی اہمیت چیف جسٹس سے نہیں بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہیں تھی، ملاقات کو آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے، اٹارنی جنرل آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نہیں کہا کہ کسی ریٹائر جج کو کمیشن کا سربراہ بنایا جائے، پروپوزل آیا سپریم کورٹ کے کسی غیر جانبدار جج کو کمیشن سربراہ بنایا جائے، پروپوزل میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کا نام سامنے آیا۔

انھوں نے کہا کہ قانون پابند کرتا ہے کہ تمام ادارے کمیشن کےتابع ہوں گے، وزیراعظم نےآپ کو ہرطرح کےتعاون کی یقین دہانی کرائی تھی، کمیشن کے پاس بہت سےاختیارات ہیں، کمیشن کی ساری کارروائی جوڈیشل ہوگی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی بتا دیں کہ ہم نے کون سے ججز کے نام تجویز کیے تھے۔

چیف جسٹس کے کہنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آپ کی طرف سے ناصرالملک اور تصدق جیلانی کے نام تجویز ہوئے، یہ کہنا کہ وفاقی حکومت نے خود ہی نام تجویز کردیا یہ غلط ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر ملاقات نہیں کی، وزیراعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لئے وہ انتظامی سربراہ ہیں، سمجھ نہیں آرہا ہم کس طرف جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر عجیب عجیب باتیں ہوئیں، لوگوں نے تصدق جیلانی پر الزامات لگائے،عجیب باتیں کیں، تصدق جیلانی نے تحریری طور پر کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس (ر)تصدق جیلانی سےوزیرقانون کی ملاقات ہوئی، تصدق جیلانی نے ٹی او آرز مانگے، وزیراعظم نے ٹی او آرز کے بعد دوبارہ تصدق جیلانی سے رجوع کی ہدایت کی، پھر انھوں نے ہفتہ کو ٹی اوآرز پر اتفاق کیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد ’تصدق جیلانی پر کچھ ذاتی حملے شروع ہوگئے‘، کون شریف آدمی ایسے ماحول میں خدمت کرے گا، کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا ہے، ہمیشہ کہتا ہوں ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری ایکٹ کےتحت کمیشن کےپاس عدالتی نوعیت کےاختیارات ہوتےہیں، قانون تمام اداروں کو کمیشن کی معاونت کا پابند کرتا ہے، عدلیہ کی آزادی پر وفاقی حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، سپریم کورٹ سےجےآئی ٹی اور مانیٹرنگ ججز بھی تعینات ہوئے، مانیٹرنگ جج کی تعیناتی آرٹیکل 203 کیخلاف تھی، مرزا افتخار نےآپ کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں، آپ کی اہلیہ نے شہزاد اکبر اور فیض حمید کو نامزد کیا، لیکن کارروائی نہیں ہوئی، عدالت اس وقت اور آج کی حکومت کا کنڈکٹ دیکھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں، ہائیکورٹ ججز نے ملاقات میں کہا آپ جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں، یہ تاثرغلط ہےکہ سپریم کورٹ نےاپنےاختیارات حکومت کو دے دیے، سپریم کورٹ میں پہلے بھی کمیشن بنےلیکن آئینی اختیارات نہیں ہیں، میری سمجھ کے مطابق کمیشن بنانے کا اختیار پارلیمان نے سرکار کو دیا ہے‘۔

اٹارنی جنرل بولے ججز خط میں بیان کچھ واقعات ایک سال یا اس سے کچھ پرانے ہیں، واقعات کے شواہد جمع کرنے ہونگےاس لئےکمیشن تشکیل دینا مناسب سمجھا، عدالت کو آج بھی معاونت درکار ہے، وفاقی حکومت فراہم کرےگی، ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی اسٹیک پر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا میں صرف چیئرمین اورممبر ہوں، تصدق جیلانی سے متفق ہوں سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے، خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کوعہدے سے ہٹایا، سپریم کورٹ نے قرار دیا شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلہ ہائیکورٹ کے6 ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ججز کا دباؤ ساتھی ججز،اہل خانہ، بچوں، دوستوں سے بھی آسکتا ہے، آج کل نئی وبا پھیلی ہے، سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے، ججز نےخط میں توہین عدالت کےمعاملےکا بھی ذکر کیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر کہا کہ توہین عدالت کا اختیار آئین دیتا ہے قانون نہیں، کسی اورعدالت کا اختیار بھی استعمال نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم سب کی عزت کرتے ہیں اورچاہتے ہیں وہ بھی کریں، کوئی غلط کام کریں گےتو ہم پکڑیں گے اور سخت رویہ اختیار کریں گے، نظام چلے گاجب ہر کوئی اپنا کام کرے، شرطیں لگی تھیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے، آپس میں بحث چھڑگئی تھی کہ الیکشن کی تاریخ کون دے گا، ہم نےالیکشن کی تاریخ کےمعاملے پر 12دن میں فیصلہ کیا، ہماری جو ذمہ داری ہے ہم وہ کریں گے، جو دوسروں کی ذمہ داری ہے وہ ہم کروائیں گے، جوغلط کام کر رہے ہیں انگلیاں اٹھی ہیں ہم وہ بھی دیکھیں گے، کسی سول جج یا سیشن جج کی طرف سے مداخلت کی شکایت نہیں آئی، یقینا سب سے غلطیاں ہوئی ہوں گی، ہم دوسروں پر انگلیاں کب تک اٹھائیں گے آگے چلتے ہیں بہتری کی طرف، اب اس معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے مرزا افتخار کی بات کی، آپ نے کہا مرزا افتخار نے چیف جسٹس کودھمکیاں دیں، کیا آپ نے دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں؟ ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائرہواجس پراس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا، اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ غلطی تھی، کیا کارروائی ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہورہی ہیں، ہم نے اپنا احتساب کرکے دکھایا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ججز کے خط کے معاملے پر ایگزیکٹو نامزد ہیں، کیا خط کی انکوائری بھی ایگزیکٹو کریں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہاغلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟اس پر حکومت نے کیا کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک طریقہ تویہ ہے مداخلت یہاں رک جائےاورمستقبل میں نہ ہو۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاونت کے لیے تحریری معروضات مانگ لی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم 7 ججزاس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ صرف 7 ججز ہی اسلام آباد میں دستیاب تھے، دیگر ججز اسلام آباد میں نہیں تھے اس لیے فل کورٹ نہیں بیٹھا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں، ہوسکتا ہےآئندہ فل کورٹ بیٹھے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین