Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

ایران اسرائیل تصادم، سب کچھ طے تھا؟

Published

on

ایران اور اسرائیل کے درمیان کئی دہائیوں سے ’ شیڈو وار‘ جاری تھی جو اتوار کو رات گئے ایران کے میزائل اور ڈرونز حملوں کے ساتھ اسرائیل پر کھلے حملے میں بدل گئی لیکن بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل میں کم سے کم نقصان اور ہلاکتیں محدود رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

انتہائی کوریوگراف حملے سے ایران نے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے ساتھ مسلم دنیا کے ملکوں پر بھی دباؤ بڑھایا جبکہ امریکا اور اسرائیل  نے بھی اس ’ کوآرڈینیڈ‘ حملے سے کئی مطلوب مقاصد حاصل کئے۔

یہ ایک پیچیدہ مشن تھا، اسرائیل کی طرف داغے گئے 300 سے زیادہ میزائلوں اور ڈرونز کو ہمسایہ ملکوں عراق اور اردن کی فضائی حود سے گزرنا تھا، ان دونوں ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں،اسرائیل کی جانب داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کی اکثریت اسرائیلی فضائی حدود سے باہر ہی تباہ کردی گئی۔

بہت سے جذباتی لوگ مجھے متعصب اور امریکی غلام اور غدار کہیں گے جیسے جماعت اسلامی کے ریٹائرڈ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اردن کے شاہ عبداللہ کے لیے انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے اور ایکس پر ان کی تصویر کے ساتھ ’ غدار ابن غداز ابن غدار‘ کے الفاظ لکھے۔

ایران کے ’کوریو گراف‘ اور ’ کوآرڈینیڈ‘ آپریشن کی گواہی اور تصدیق ترکی کی وزارت خارجہ نے کھلے عام کی،ترک وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا کہ بلنکن نے ہم سے کہا کہ ایران کو پیغام دیں کہ ان کی جوابی کارروائی محدود ہونی چاہیے۔ ایران نے جواب میں کہا کہ ان کا جوابی اقدام دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کا جواب ہوگا اور یہ اس سے آگے نہیں بڑھے گا۔ترکی کو حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی اس لیے کچھ بھی بے خبری میں نہیں ہوا۔

اس کی تصدیق ترک وزارت خارجہ نے ایرانی حملے کے بعد دیے گئے باضابطہ ردعمل میں بھی کی، ترک وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ترکی نے حملے سے پہلے امریکہ اور ایران کے درمیان پیغام رسانی کی تاکہ  فریقین کو "متناسب ردعمل” دکھانے پر راضی کیا جا سکے۔

خود ایرانی وزارت خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے کارروائی سے 72 گھنٹے پہلے ہمسایہ ملکوں کو اطلاع دے دی تھی۔ ترکی اور ایران کے یہ بیانات کوریوگراگ حملے کی تصدیق کرتے ہیں۔

یہ ایک ایسا آپریشن تھا جسے ناکام ہونے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا – جب ایران نے 1,000 میل دور سے ڈرون لانچ کیے، تو وہ اسرائیل کو گھنٹوں کی پیشگی اطلاع دے رہا تھا۔

اس بار صرف یہ نیا تھا کہ ڈرون اور میزائل اسرائیل کے ایک پڑوسی ملک جہاں ایران اور اس کے غیر ریاستی اتحادی موجود ہیں، کی طرف سے فائر کرنے کے بجائے یہ اسرائیلی سرزمین پر ایرانی سرزمین سے براہ راست فائر کئے گئے۔ یہ عمل اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی ایران کی صلاحیت پر سمجھوتہ تھا کیونکہ اس سے اسرائیل اور اتحادیوں کو بے خبری میں پکڑے جانے یا مارے جانے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔

پھر بھی تقریباً چار گھنٹوں کے لیے، دنیا نے اپنی سانسیں روک رکھی تھیں جب رات کے آسمان پر ہتھیاروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ آگ کے گولے تھے جو سر پر منڈلا رہے تھے، تین مختلف ممالک کے تماشائیوں نے ایسی تصاویر فلمائی تھیں جو بظاہر ایک تباہ کن جنگ کا آغاز دکھا رہی تھیں۔

ایران کا آپریشن سے 72 گھنٹے پہلے پڑوسیوں کو آگاہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل اور اس کے علاقائی شراکت دار اسرائیل کے دفاع کے لیے تیاری کر سکیں، لیکن یہ آپریشن ایک خوفناک آتش بازی کے مظاہرے سے کچھ زیادہ تھا۔

ایران کا یہ حملہ اپریل کے اوائل میں دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر اسرائیلی فضائی حملے کے خلاف انتقامی کارروائی تھی جس میں ایک اعلیٰ کمانڈر مارا گیا، اور یہ امریکی انٹیلی جنس اور تجزیہ کاروں کی توقعات کے مطابق تھا۔ ایران کی قیادت نے ایک علاقائی پاور ہاؤس کے طور پر اپنی پوزیشن کو دہرانے اور اپنے’ کاغذی شیر کے تصور کو برقرار رکھنے کے لیے خود کو اسرائیل پر حملہ کے لیے مجبور محسوس کیا۔ اس مقصد کے لیے ایرانی قیادت نے شام، لبنان، یمن یا عراق میں پراکسی کو استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی سرزمین سے آپریشن شروع کرکے اپنی طاقت کے اظہار کی کوشش کی۔

ایران جوابی کارروائی پر مجبور تھا لیکن جنگ سے بھی ہر صورت بچنا چاہتا تھا، اس کی معیشت ٹرمپ کے دور کی پابندیوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے، اور حکومت کی جابرانہ پالیسیوں پر اس کی سڑکوں پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔

جنگ سے بچنے کی اس کوشش کے لیے ایران نے اتوار کے روز اسرائیل کے مضبوط فضائی دفاعی نظام پر انحصار کیا۔ آپریشن کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کے نسبتاً اعلی درجے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایران مغربی رہنماؤں کے ساتھ بیک چینلنگ میں مصروف تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ انہوں نے امریکہ کے بڑے اتحادیوں سمیت پڑوسی ممالک کو 72 گھنٹے کا نوٹس دیا۔

حملے کا انداز سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنوری 2020 میں ایران کے سب سے منزلہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر تہران کے ردعمل کی یاد دلاتا ہے۔ تہران نے عراق میں امریکی فوجی ٹھکانوں پر بڑے بیلسٹک میزائلوں کی بارش کرنے سے پہلے امریکی فوجیوں کو 10 گھنٹے کی پیشگی وارننگ دی تھی۔ الاسد ایئربیس سمیت۔ اس حملے نے تباہی مچا دی، جس سے زمین میں گڑھے پڑ گئے، لیکن اس سے امریکی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس عمل میں، ایرانی فورسز نے غلطی سے تہران کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرنے والے ایک کمرشل جیٹ کو مار گرایا، جس سے 100 سے زیادہ مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

اس وقت، ایرانی یہ ظاہر کرنے میں مصروف تھے کہ ان کی فوج کیا کر سکتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ کیا کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ نے علاقائی جنگ کو ٹالتے ہوئے جوابی کارروائی نہیں کی۔

اسرائیلی اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ اس قدر وسیع حملے کو ان کے آئرن ڈوم سسٹم اور اتحادیوں نے مل کر ناکام بنایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانی ڈرونز یوکرین کے محاذ پر کامیاب ہیں جہاں میزائل ڈیفنس سسٹم اور جنگی طیارے دفاع کے لیے موجود نہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ایران نے 115 سے 130 بیلسٹک میزائل داغے لیکن ان میں سے نصف لانچنگ میں ہی فیل ہو گئے یا مطلوبہ اہداف تک ہی پہنچنے میں ناکام رہے جبکہ باقی نصف کو دفاعی نظام نے مار گرایا۔

اس کوآرڈینیٹڈ آپریشن کے بعد کشیدگی پھیلنے اور علاقائی جنگ کے خطرات بظاہر نظر نہیں آتے،امریکہ نے عوامی طور پر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حصہ نہیں لے گا،اس کے باوجود نیتن یاہو کا اسرائیل تیزی سے غیر متوقع ثابت ہوا ہے۔ اگر اسرائیل امریکی دباؤ اور مرضی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کوئی کارروائی کرتا ہے توتہران اسرائیل کی شمالی سرحد کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ حملے سے ایک ہفتہ قبل، اس معاملے سے واقف ایک لبنانی ذریعے نے اس بات کو مسترد کر دیا تھا کہ حزب اللہ، ایران کا سب سے طاقتور مسلح گروپ پارٹنر، یکم اپریل کو قونصل خانے پر ہونے والے حملے پر ایران کی ابتدائی جوابی کارروائی کا حصہ ہوگا۔

تاہم، ذریعے نے خبردار کیا کہ حزب اللہ اور ایران کی حمایت یافتہ دیگر جنگجو قوتیں "ایرانی ردعمل کے بعد آنے والے مرحلے کے لیے تیار رہیں گی۔”

ایک زبردست اسرائیلی جوابی کارروائی ایران کو اپنی اسرائیل پالیسی سے کہیں زیادہ سخت گیر موقف اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ قدامت پسندوں نے حالیہ برسوں میں ایران کی حکومت پر کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی اور اسرائیل کے بعض حلقوں میں کچھ اطمینان ہونا چاہیے کہ ایران کا محدود ردعمل اسرائیل کے حق میں طاقت کے عدم توازن کی عکاسی کرتا ہے۔لیکن یہ واقعہ تہران میں ان لوگوں کو بھی تقویت بخشے گا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہونا چاہیے۔

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای، اگلے ہفتے 85 سال کے ہو جائیں گے،وہ خمینی کے بعد ایران کی اعلیٰ قیادت کا کردار سنبھالے ہوئے 35 سال مکمل کر رہے ہیں۔ عراق جنگ کے دوران صدر کی حیثیت سے اپنے ماضی سے لے کر اپنی موجودہ پوزیشن تک، ایران اکثر تنازعات کے دہانے پر ہے۔

ایرانیوں کے لیے، خامنہ ای کی قیادت میں جنگ کا خوف مستقل رہا ہے، پابندیوں اور سرمائے کی پرواز کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے حالات زندگی بدتر ہو گئے۔

ایرانی حکام نے جنگ کے خوف کو عسکری سرگرمیوں اور جوہری پروگرام کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔

جنگ کے خوف کو ووٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے سیاسی طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، خاص طور پر انتخابات کے دوران جب اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدوار جیت جاتے ہیں۔اب ایک بار پھر جنگ کے خوف کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کے مقاصد اندرونی سیاست میں پوشیدہ ہیں۔

جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر فضائی حملے کی منظوری دی تو وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

اگرچہ سفارتی مشن پر کوئی بھی حملہ 1961 کے ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کی صریح خلاف ورزی ہے، اسرائیلی رہنما غزہ پر اسرائیلی جنگ میں اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا چاہتے تھے۔اس میں وہ نہ صرف کامیاب رہے ہیں بلکہ پچھلے چند ہفتوں سے اسرائیل کے لیے بین الاقوامی حمایت میں جو کمی آ رہی تھی، اس سلسلے کو بھی لگام لگ گئی ہے، امریکا، جرمنی اور فرانس سمیت اہم ممالک ایک بار پھر اسرائیل کے دفاع کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔

اسرائیل اور ایران کی طرف سے فوجی طاقت کے اس مظاہرے نے باقی عرب دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے کہ ایک اور علاقائی جنگ پہلے سے تباہ حال خطے کا کیا بگاڑ سکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی اثرات ہوں گے۔ کوئی بھی علاقائی ایران-اسرائیل تنازعہ خلیجی ممالک بلکہ امریکہ، روس اور چین کو بھی کھینچ لے گا، جس سے ممکنہ طور پر دھماکہ خیز عالمی تصادم پیدا ہو گا۔

چونکہ اسرائیل اور ایران "دہشت گردی کا توازن” قائم کر رہے ہیں، بین الاقوامی برادری کو کام کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک مضبوط پابند قرار داد منظور کرنی چاہیے جس میں خطے میں مکمل جنگ بندی نافذ کی جائے جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقے، اسرائیل، ایران اور اس میں شامل تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی عناصر بھی شامل ہوں۔

اہم بات یہ ہے کہ اس قرارداد کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ فلسطین کا حل طلب مسئلہ ہے۔ اس لیے فلسطینی ریاست کا ایک واضح روڈ میپ فراہم کرنا چاہیے اور 1967 میں مقبوضہ تمام عرب علاقوں سے اسرائیلی فوجی کنٹرول کے خاتمے کے لیے اسے ایک بین الاقوامی امن فوج تشکیل دینا چاہیے جو تمام فریقوں کی طرف سے تعمیل کو یقینی بنائے۔

Continue Reading
1 Comment

1 Comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین