Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

ایران: حجاب پابندی کے لیے پولیس کا گشت دوبارہ شروع، بے چینی کی نئی لہر

Published

on

ایران میں حجاب کی پابندی پر عمل کرانے کے لیے ’ گشت ارشاد‘ فورس نے دوباتہ گشت شروع کر دیا، یہ گشت مہسا امینی کی ہلاکت اور اس کے بعد پھوٹنے والے مظاہروں کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ گشت دوبارہ شروع ہونے سے بہت سے ایرانی عوام کو خدشہ ہے کہ ملک میں دوبارہ بے چینی پھیل سکتی ہے۔

پولیس کے ترجمان سعید منتظر المہدی نے گشت ارشاد کے دوبارہ فعال ہونے کا اعلان کرے ہوئے کہا کہ یہ فورس پیدل اور کاروں پر گشت کرے گی اور شہریوں کے ’ غیر معمولی لباس‘ کے معاملات کو دیکھے گی۔

گشت ارشاد نے 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب ’ ناماسب‘ انداز میں اوڑھنے پر گرفتار کیا تھا اور وہ پولیس حراست میں دم توڑ گئی تھی، ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے کئی بیماریوں کا شکار تھی او بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔

ایران کے ایک سابق عہدیدار نے امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ’ خود کو تباہ کرنے کے رجحان‘ کا عکاس ہے، لگتا ہے ملک پر اسرائیلی ایجنٹ راج کر رہے ہیں، اس فیصلے سے  حکومت مخالف مظاہروں کی نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے اور بدامنی پھیل سکتی ہے۔

حجاب پر پابندی کرانے کی ویڈیوز ابھی سے سوشل میڈیا پر پھیلنا شروع ہو چکی ہیں، ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایک خاتون پولیس اہلکار ایک خاتون کو کار میں دھکیل رہی ہے اور خاتون مزاحمت کرتے ہوئے ساتھ جانے سے انکار کر رہی ہے۔

بڑھتی ہوئی خلاف ورزی

گشت ارشاد پولیس 2006 میں سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد ’ شرم و حیا کے کلچر کا فروغ اور حجاب کی پابندی‘ ہے۔

بعد کے برسوں بالخصوص صدر حسن روحانی کے دور میں لباس سے متعلق پابندیوں کے نفاذ میں نرمی آئی تھی، جولائی 2022  میں صدر ابراہیم رئیسی نے ’ حجاب پابندی کے نفاذ کے لیے تمام اداروں کو متحرک‘ کرنے پر زور دیا۔

ستمبر میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد خواتین پر پولیس کا کریک ڈاؤن عروج پر پہنچ گیا، مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے،ان مظاہروں میں درجنوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں گرفتار ہوئے۔

عوام کا اشتعال کم کرنے کے لیے گشت ارشاد پولیس کو سڑکوں سے واپس ہٹا لیا گیا اور نگرانی کے لیے سڑکوں پر کیمرے لگا دیئے گئے۔

حجاب نہ کرنے والی خواتین کو جرمانوں کے علاوہ تعلیم کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، ہوائی اڈوں اور ریسٹورنٹس پر سروس فراہم نہیں کی جاتی۔فون نمبرز بلاک کر دیئے جاتے ہیں۔

مظاہروں کی شدت میں کمی کے بعد حکومتی پابندیوں کی مخالف لڑکیوں اور خواتین نے ریاست کی جانب سے لاگو کئے گئے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی اپنالی اور سڑکوں پر خواتین نے حجاب کے بغیر گھومنا شروع کردیا اور نگران کیمروں کی پروا چھوڑ دی تھی۔

حجاب کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھنے پر قدامت پسندوں اور حکومت کے حامیوں نے خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا اور اس مطالبے کے حق میں مظاہرے بھی کیے جن کے بارے میں اصلاح پسندوں کا دعویٰ ہے کہ ان مظاہروں کا انتظام خود حکومت نے کیا۔

فیصلے پر تعجب

گشت ارشاد کو دوبارہ فعال کرنے کے فیصلے پر کئی ارکان پارلیمنٹ بھی حیرت زدہ ہیں، پارلیمنٹ کے سماجی کمیشن کے سربراہ ولی اسماعیلی نے کہا کہ اس فیصلے کے لیے پارلیمنٹ کے ساتھ مشاورت نہیں ہوئی۔

ایک اور رکن پارلیمنٹ معین الدین سعیدی نے فیصلے کو ’ انتہائی عجیب ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ قانونی معیارات پر پورا نہیں اترتا، ہم پچھلے ستمبر میں اس طرح کے گشت کے نتائج اور اس کے نقصانات بھگت چکے ہیں۔

قدامت پسندوں کے کیمپ کے اندر سے بھی اس فیصلے کی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، ایک قدامت پسند سماجی کارکن اکبر نبوی نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’ احمق حکام‘ اختیارات مضبوط کرنے کے لیے ماضی کے سبق بھول گئے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین