Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

سفارتخانے پر اسرائیلی حملہ، ایران کے آپشنز کیا ہیں؟

Published

on

پیر کے روز دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر کیے گئے فضائی حملے میں دو اعلیٰ فوجی کمانڈروں سمیت سات ایرانی اہلکار مارے گئے تھے،حملے کے متعلق تہران کا کہنا ہے کہ یہ کام اسرائیل کا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایرانی اہداف پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ ہے، اس سے پہلے 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں اعلیٰ ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا اور اسے سب سے بڑا بڑا حملہ اور ہائی ویلیو ٹارگٹ کہا جاتا تھا لیکن اس بار حملہ سفارتی کمپاؤنڈ پر ہوا ہے۔ایران، اسرائیل اور امریکا کے ساتھ جنگ نہ چاہنے کے باوجود اس حملے کا جواب دینے پر مجبور ہے۔

اسرائیل ایک حکمت عملی کے تحت برسوں سے شام میں ایرانی اور ایرانی اتحادی مفادات پر حملہ کر رہا ہے۔ اور اس نے 7 اکتوبر کے بعد سے اس طرح کے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پیر کا حملہ ایک بڑی اشتعال انگیزی ہے، کیونکہ اسرائیل نے سفارت خانے کے ایک کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا اور ایران کے ایلیٹ ریولوشنری گارڈز (IRGC) کے ایک اعلیٰ کمانڈر کو ہلاک کیا۔ ایران اسے بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھتا ہے۔

اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن اس نے دلیل دی ہے کہ اس کا ہدف "قدس فورسز کی عسکری عمارت” تھی۔

"یہ کوئی قونصل خانہ نہیں ہے، اور یہ کوئی سفارت خانہ نہیں ہے،” اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا۔

ایران کے آپشنز کیا ہیں؟

امریکی مفادات کو نشانہ بنانا

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے حملے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا۔

تہران میں سوئس چارج ڈی افیئرز، جو ملک میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، کو ایران کی وزارت خارجہ نے منگل کے روز طلب کیا اور "صیہونی حکومت کے حامی کے طور پر امریکی انتظامیہ کو ایک اہم پیغام پہنچایا،” امیر عبداللہیان نے ایکس پر کہا۔ ’’امریکہ کو جوابدہ ہونا چاہیے۔‘‘

ایران کے اس ردعمل سے یہ واضح ہے کہ ایرانی امریکہ کو اسرائیل کے کاموں کے لیے اتنا ہی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جتنا کہ امریکہ عراقی ملیشیا کے کاموں کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

ایران پہلے ہی شام، عراق میں اتحادی ملیشیاؤں کے ذریعے امریکہ کے ساتھ نچلی سطح کے پراکسی تنازع میں مصروف ہے۔ لیکن جنوری میں اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے یہ تنازعہ کم ہو گیا ہے۔ امریکہ نے عراق اور شام میں کم از کم سات مقامات پر درجنوں حملے کرکے جوابی کارروائی کی۔

سفارت خانے پر حملے کے بعد سے ایران کی بیان بازی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ یہ "جنگ بندی” ختم ہو سکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران پر اسرائیلی حملے نے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال دیا ہے۔

خطے میں امریکی افواج ایران کی اتحادی ملیشیا کے قریب کام کرتی ہیں، اسرائیلی کارروائی کے جواب میں امریکا پر حملہ اسرائیل کو سزا کی بجائے ممکنہ طور پر تہران اور واشنگٹن کو براہ راست تصادم میں لے جائے گا، دونوں فریق براہ راست تصادم کی خواہش نہیں رکھتے۔

آخری بار ایران نے امریکی مفادات پر براہ راست حملہ 2020 میں کیا تھا جب تہران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکی اڈے پر بیلسٹک میزائلوں کی بارش کی تھی۔ یہ حملہ کئی دہائیوں میں امریکی فوجیوں کی رہائش گاہ پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا۔

واشنگٹن نے پیر کے اسرائیلی حملے سے خود کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے منگل کو سی این این کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ ملوث نہیں تھی اور اسے پیر کے حملے کے بارے میں پیشگی علم نہیں تھا، اور یہ کہ امریکہ نے "ایران کو براہ راست اس سے آگاہ کیا ہے۔”

اسرائیل کے خلاف پراکسی گروپس کا استعمال

اسرائیل کے خلاف جنگ میں ایران کی سب سے زیادہ قابل پراکسی لبنان کی حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس اسرائیل کے قریب قریب 150,000 راکٹ اور گائیڈڈ گولہ بارود ہے اور اس نے اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔

اسرائیل کئی مہینوں سے حزب اللہ کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے، اس نے اپنے شمال میں 40 سے زیادہ کمیونٹیز کو خالی کرایا ہے۔ دونوں فریق جھڑپوں میں مصروف رہے ہیں جو سرحد کے دونوں طرف چند کلومیٹر تک محدود ہیں۔

حزب اللہ نے کہا کہ پیر کے ذحملے کی "سزا اور انتقام” ضرور ہو گا، لیکن اسرائیل کے ساتھ تباہ کن جنگ میں داخل ہونے کی حزب اللہ کی خواہش بھی نہیں ہوگی۔

ایران خطے میں دیگر اتحادی ملیشیاؤں کو بھی متحرک کر سکتا ہے، لیکن اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی ان کی صلاحیت محدود ہے۔ یمن کے حوثی پہلے ہی بحیرہ احمر کے ذریعے اسرائیل اور عالمی تجارت میں خلل ڈال رہے ہیں اور اسرائیل کی طرف میزائل داغنے کی کچھ ناکام کوششیں کر چکے ہیں۔ عراقی ملیشیا، جو حوثیوں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہیں، نے بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کی کوششیں کی ہیں، جو زیادہ تر بیکار رہی ہیں۔

خطے کی سکیورٹی پر نظر رکھ نے والے ماہرین کا خیال ہے کہ  ایران اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنی پراکسی قوتوں کا استعمال کرے گا، لیکن اس میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔

بیرون ملک اسرائیلی مفادات پر حملہ

ایران پر ماضی کے حملوں کے بعد، اسرائیل نے اکثر بیرون ملک مفادات پر ایرانی انتقامی کارروائیوں کے خدشے کے پیش نظر اپنے سفارت خانوں کی حفاظت کو بڑھایا ہے۔

اسرائیل ماضی میں ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ایرانی سائنسدانوں اور اہلکاروں کے مبینہ اسرائیلی قتل اور اس کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے جواب میں بیرون ملک اس کے سفارتی مشن کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

1992 میں ارجنٹائن میں اسرائیلی سفارت خانے میں بم دھماکے میں 29 افراد مارے گئے۔ اسرائیل نے اس کا الزام حزب اللہ اور ایران پر لگایا۔ 2012 میں بھارت، جارجیا اور تھائی لینڈ میں اسرائیلی سفارت کاروں کو نشانہ بنایا گیا جس کا الزام اسرائیل اور دیگر نے ایران پر لگایا جس کی اس نے تردید کی۔

ایرانی رکن پارلیمنٹ جلال راشدی کوچی نے ایکس پر تجویز پیش کی کہ ایران کو آذربائیجان میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کرکے جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔

اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران اپنی ڈیٹرنس کی صلاحیت کھو چکا ہے، تہران یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ وہ کسی بڑی جنگ کو اکسائے بغیر اس صلاحیت کو برقرار رکھتا ہے۔

براہ راست فوجی کارروائی سے گریز

اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد سے ایرانی اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ تہران کی طرف سے ردعمل اب تک بڑے پیمانے پر شعلہ بیانی تک محدود رہا ہے، اور وہ چند ایک دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیر کے حملے کی شدت کے پیش نظر ایران اس بار کارروائی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے، لیکن ایسا کرنے کی صورت میں تہران کسی جال میں پھنس سکتا ہے۔ جیسے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک وسیع جنگ، اس صورت میں مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے جو اس وقت غزہ میں اسرائیلی طرز عمل کی وجہ سے اس سے دور ہو رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران کو ردعمل کے لیے اکسا رہا ہے۔ اب گیند تہران کے کورٹ میں ہے۔

وسیع خطہ، اسرائیل اور امریکہ سبھی ایک بڑی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، تہران ان حرکیات کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ کچھ وقت اور فائدہ حاصل کر سکے۔

ایران کے ممکنہ کارڈز میں سائبر حملے،پراکسی اور سفارتی جارحیت اور نچلی سطح کے فوجی حملے ہیں۔

IRNA نیوز ایجنسی کے مطابق ایران نے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے تاکہ "بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی کی واضح مذمت کی جائے۔”

تاہم براہ راست فوجی کارروائی کا فقدان "ایران کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتا ہے کہ اسرائیل کو مزاحمتی محاذوں کے محور کو ایک ایک کر کے ختم کرنے کے لیے وقت اور جگہ ملے گی۔اس طرح کی تبدیلی خطے میں ایران کی صلاحیتوں کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین