Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

جون ایلیا: اپنی طرح کا آخری مہذب اور مجلسی آدمی

Published

on

’جون صاحب اپنی بیوی اور بچوں سے بہت محبت کرتے تھے لیکن وہ حد درجہ لاپروا تھے۔ وہ بحیثیت شوہر ایک ناکام شوہر اور بحیثیت باپ بھی ایک ناکام باپ ثابت ہوئے۔ وہ گھریلو ذمہ داریاں نبھا نہ سکے۔ شاید زاہدہ حنا کے کے پاس الگ ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا‘

یہ الفاظ سراج نقوی کے ہیں، جن کا تعلق امروہہ میں سید حسین جون اصغر نقوی المعروف جون ایلیا کے خاندان سے ہے اور ان کا شمار بھارت میں اردو کے معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ باتیں جون کی شخصیت کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہیں،

سراج نقوی نے کہا کہ جون ایلیا اردو ادب کے ایک عظیم شاعر ہیں لیکن وہ بحیثیت شوہر اور والد ناکام ثابت ہوئے۔

میں جون ایلیا کو کامیابی یا ناکامی کی سند دینے کی حیثیت نہیں رکھتی لیکن ان کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری اس رائے سے متفق ہوں کہ بعض افراد سیدھی سادی یا صراط مستقیم شخصیت نہیں ہوتے،ان میں ایک نوع کی پیچیدگی یا ژولیدگی پائی جاتی ہے،جون ایلیا بھی اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ صراط مستقیم کی شخصیت نہیں تھے،اسی لیے ان کے بارے میں بندھی ٹکی آرا سے کام نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

جون ایلیا کا اپنا ایک مصرعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی شخصیت کے اس پہلو کی خود نشاندہی کی ہے۔

؎ میں مسطر پر کھینچا ہوا نہیں

جون ایلیا کو بیزاریوں اور ناآسودگیوں کا شاعر کہا گیا،یاسیت و قنوطیت کے آثار تلاش کئے گئے جو بہت آسانی کے ساتھ ان کی شاعری میں مل بھی جاتے ہیں لیکن کمال احمد صدیقی نے لکھا اور خوب لکھا کہ ان کی ناآسودگی عام آدمی کی زندگی اور ناآسودگی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جون ایلیا ایک طرف کہتے ہیں

خواب و خیال و وہم و گماں کچھ نہیں بچا

کیا پوچھتے ہو دل کا زیاں کچھ نہیں بچا

اب کیا دکھاؤں فرد حساب نبود و بود

بس مختصر یہ ہے کہ میاں کچھ نہیں بچا

اور دوسری طرف کہتے ہیں

مر نہ جاتے تو اور کیا کرتے

بے تمنا جیا گیا ہی نہیں

جون گویائی میں ضرر تھا بہت

پر لبوں کو سیا گیا ہی نہیں

جون ایلیا کی شاعری انہی دو رنگوں کے درمیان کی شاعری ہے،قنوطیت اور رجائیت کا ایک عجیب سنگم ہے،شاید جون ایلیا کو کبھی آرام ملا ہی نہیں، دل ان کا امروہہ میں تو قدم کراچی کے زینے پر، جہاں آدمیت، شرافت سب ڈسٹرب کرتے ہیں۔ زندگی میں کبھی آرام نہ پانے کا احساس دعوت عمل بھی ہے اور دعوت فکر بھی اور حیات کے اس تسلسل و ارتقا کا اشاریہ بھی،جس سے زندگی نمو پذیر ہوتی ہے، ہچکولے کھاتی ہے،تضادات کا شکار ہوتی ہے۔

جون ایلیا اپنے اندر دھمال ڈالتا اور اپنے باہر رقص کرتا ہوا ایک بے مثال سخنور تھا،جون کس قدر حساس اور مضطرب طبیعت کے حامل تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ جون ایلیا لاہور کے ایک پبلشر کے دفتر میں بیٹھے تھے، ان کے مداحوں نے گھیرا ہوا تھا اور وہ شعر سنا رہے تھے۔

اپنے آپ سے ہم سخن رہنا

ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

کیا ستم کہ اب تری صورت

غور کرنے پہ یاد آتی ہے

یہ اشعار پڑھتے ہوئے جون ایلیا رو رہے تھے اور آنسو ان کے رخساروں پر پھسل رہے تھے۔

ان کی حساسیت کا ایک اور واقعہ جو انہوں نے خود بیان کیا، مداحوں میں گھرے جون ایلیا بتاتے ہیں، یارو! یہاں لاہور میں ایک شاعر ہے( انہوں نے ایک نوجوان شاعر کا نام لیا) اس کی فرمائش پر میں نے اس کے مجموعے کا دیباچہ لکھا، اس نے وہ دیباچہ تو چھاپ دیا لیکن اس میں تحریف کردی،ایک دو جملے نکال دیئے، اس حرکت کے باوجود وہ چل پھر بھی رہا ہے،ہنس بول بھی رہا ہے، حتیٰ کہ سانس بھی لے رہا ہے،اور کوئی شخص بھی کچھ نہیں کرتا، حیف ہے بھئی ، حیف ہے۔

جون ایلیا کے ساتھ یہ ظلم ہوا کہ وہ ’ شاید‘ کے بعد اپنا کلام ترتیب نہ دے سکے اور بعد میں شائع ہونے والے ان کے مجموعوں میں وہ کلام بھی شامل ہوگیا جو انہوں مشق، وقت گزری اور مشغلے کے طور پر لکھا اور ان کی دیگر شاعری کی نسبت کچھ کمزور ہے۔

جون ایلیا نے کچھ جذبات و احساسات کو بیان کیا ہے اور کچھ ایسے انداز میں کیا ہے کہ ان سے پہلے ایسے کبھی نہ ہوا ہوگا۔

کیا کہا؟ عشق جاودانی ہے

آخری بار مل رہی ہو کیا؟

ایک اور شعر ملاحظہ ہو۔

عشق کو درمیاں میں نہ لاؤ کہ میں

چیختا ہوں بدن کی عسرت میں

جو لوگ کہتے ہیں کہ جون ایلیا خواہشات نفسانی کا شاعر ہے،عورتوں کے اعضا کے متعلق شعر کہتا ہے، انہیں شاید خود انسانی جذبات اور فطری خواہشات سے خوف آتا ہے یا پھر وہ پارسائی کا ناٹک کرتے ہیں۔ جون ایلیا کا انسانی وجود کی ایک حقیقت کو بیان کرنا فحش گوئی نہیں، بلکہ اصل جرم تو یہ ہے کہ عشق کے پردے میں خواہشات پوری کی جائیں۔ نفسیاتی کیفیات کی ترجمانی اس سے زیادہ سادہ انداز میں کیا ہوگی۔

میں اسی طرح تو بہلتا ہوں

اور سب جس طرح بہلتے ہیں

ایک اور شعر ملاحظہ ہو۔

تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے؟

تو بستر کیوں بچھایا جا رہا ہے؟

یادیں کس طرح انسان کے اندر ہلچل مچاتی ہیں،اس کیفیت کو جون ایلیا نے کس قدر خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

یادیں ہیں یا بلوہ ہے؟

چلتے ہیں چاقو مجھ میں

تین مصرعوں کی ایک اور نظم بڑی بڑی نظموں اور غزلوں پر بھاری ہے۔

وہ میرا خیال تھی، سو وہ تھی

میں اس کا خیال تھا، سو میں تھا

اب دونوں خیال مر چکے ہیں

دونوں خیال مرنے کی بات ایک سفاک حقیقت کو بیان کرتی ہے، ایسے کتنے ہی اشعار ہیں جن کے موضوعات بہت گنجلک اور گہرے ہیں لیکن جس قدر آسانی سے جون ایلیا نے انہیں بیان کیا ہے وہ ان کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہے۔

اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم

اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے

جذبات نگاری کے لیے الفاظ کا چناؤ شاید جون ایلیا سے بہتر کوئی نہیں کر پایا، کیفیات کی شدت بیان کرنے کے لیے انہیں ایک ہی لفظ کافی ہوتا تھا۔

دل کو تری ہوس سے کسی دم قرار نہیں

ہلکان ہو گیا ہوں تری دلکشی سے میں

ہلکان کے ایک لفظ  نے کیفیت کو شدید ترین بنا دیا ہے۔ اس کیفیت کو پڑھنے والا بھی پوری شدت سے محسوس کرنے کے قابل ہے۔

جون ایلیا کراچی شہر کا اپنی طرز کا آخری مہذب اور مجلسی آدمی تھا،اب یہ شہر اور طرح کے مہذب اور مجلسی آدمیوں کا شہر لگتا ہے،خواتین و حضرات یہاں اور طرح کے مہذب اور مجلسی آدمی کے الفاظ پر ناراض مت ہو جایئے گا۔

سلیم کوثر نے اپنے مضمون میں لکھا تھا، بات یہ ہے جون ایلیا اور اس کی طرح کے مہذب اور مجلسی آدمیوں کے ساتھ ’ اور طرح‘ کا لفظ اپنے اندر اور طرح کے معنی و مفہوم اور توجیہہ کی سج دھج رکھتا ہے۔ہم میں بہت سے زندگی کی ہوس میں زندگی سے ہار گئے ہیں مجھے لگتا ہے کہ اس کھیل میں اب کی دفعہ زندگی نے جون ایلیا کو ہار دیا ہے۔

سعدیہ آصف اردو لٹریچر میں ماسٹرز ہیں، اردو ادب ان کی دلچسپی کا اہم موضوع ہے، لکھنے پڑھنے کا شغف رکھتی ہیں، 2007ء سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین