Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

مراکش: زلزلے سے ہلاکتیں 2 ہزار سے بڑھ گئیں، ملبے تلے دبے افراد کو تلاش کرنے کی سرتوڑ کوششیں

Published

on

امدادی کارکن مراکش کے چھ دہائیوں میں سب سے مہلک زلزلے سے بچ جانے والوں کی تلاش جاری تکھے ہوئے ہیں، اس تباہی سے 2,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ زلزلے نے مراکیش کے قریب پہاڑی قصبوں دیہات کو ویران کر دیا ہے۔

جمعہ کو دیر گئے 6.8 شدت کے زلزلے کے بعد بہت سے لوگوں نے دوسری رات کھلے آسمان تلے گزاری۔ امدادی کارکنوں کو  متاثرہ پہاڑی دیہاتوں تک پہنچنے کا چیلنج درپیش ہے، یہ ایک ناہموار پہاڑی سلسلہ ہے جہاں بستیاں اکثر دور دراز ہوتی ہیں اور جہاں بہت سے مکانات گر چکے ہیں۔

مراکیش سے تقریباً 40 کلومیٹر (25 میل) جنوب میں واقع ایک گاؤں مولے براہیم کے قریب ایک چٹان کے بڑے ٹکڑے ٹوٹ کر سڑک پر گر گئے، جس سے شہر کو پہاڑوں سے ملانے والی سڑک جزوی طور پر بند ہو گئی تھی۔

آسنی کے علاقے کے ایک رہائشی عدینی مصطفیٰ نے رائٹرز کو بتایا کہ "ملبے کے نیچے اب بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔ لوگ اب بھی اپنے والدین کو تلاش کر رہے ہیں۔

بہت ساری سڑکیں بند ہیں

مولے براہیم میں عارضی خیمے لگائے گئے تھے۔ رات باہر گزارنے کے لیے مکین کمبل میں لپٹے ہوئے تھے۔

وزارت داخلہ کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 2,012 ہے، 2,059 افراد زخمی ہیں جن میں سے 1,404 کی حالت نازک ہے۔

مراکش میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور شاہ محمد ششم نے اتوار کو ملک بھر کی مساجد میں مرنے والوں کے لیے دعاؤں کی اپیل کی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا کہ اس آفت سے 300,000 سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کی عالمی ڈائریکٹر آپریشنز کیرولین ہولٹ نے ایک بیان میں کہا، "جان بچانے کے حوالے سے اگلے 24 سے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہوں گے۔”

آنسی کے علاقے میں تنسگھارٹ کا گاؤں، ایک وادی کے کنارے جہاں مراکیش سے سڑک پہاڑو ں کی جانب اٹھتی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

اس کے دلکش مکانات، جو ایک کھڑی پہاڑی پر بنےہوئے تھے، ہلتی ہوئی زمین سے پھٹ گئے تھے۔ جومکان اب بھی کھڑے تھے ان میں دیوار یا پلاسٹر کے ٹکڑے غائب تھے۔ مسجد کے دو مینار گر چکے تھے۔

عبداللطیف، ایک مزدور، زمین پر لیٹا ہوا تھا، بمشکل ہلنے یا بولنے کے قابل تھا، اس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔

"ہمارے پاس اسے لے جانے کے لیے کوئی گھر نہیں ہے اور کل سے ہمارے پاس کوئی کھانا نہیں ہے،” ان کی بیوی سیدہ  نے کہا، ان کے چھ افراد کا خاندان مستقبل کے لیے خوفزدہ ہے اور ان کے واحد کمانے والا بہت بری طرح سے زخمی ہے۔ "ہم خدا کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔”

ایک رہائشی نے بتایا کہ گاؤں میں پہلے ہی دو نوعمر لڑکیوں سمیت 10 اموات کا سوگ منایا جا رہا ہے۔

زندہ بچ جانے والوں کو ملبے سے نکالنا

امید تھی کہ مزید زندہ بچ جانے والے مل سکتے ہیں۔ مولے براہیم میں سنیچر کو حاصل کی گئی فوٹیج میں ریسکیورز کو ملبے سے کسی کو نکالتے ہوئے دکھایا گیا۔ دو ریسکیورز نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگایا جب اس شخص کو اسٹریچر پر لے جایا گیا۔

زلزلے کا مرکز مراکش کے جنوب مغرب میں تقریباً 72 کلومیٹر (45 میل) کے فاصلے پر تھا، یہ شہر مراکش کے لوگوں اور غیر ملکی سیاحوں میں قرون وسطیٰ کی مساجد، محلات اور مدرسوں کے لیے مقبول تھا۔

مراکیش کے پرانے کوارٹرز کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ گھر والے اس خوف سے سڑکوں پر جمع ہیں کہ اب ان کے لیے گھر واپس جانا محفوظ نہیں رہا۔

"میں وہاں سو نہیں سکتا۔ میں حکام سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ میری مدد کریں اور ایک ماہر کو لے کر یہ جائزہ لیں کہ آیا میرے لیے گھر واپس آنا ممکن ہے یا نہیں،” 51 سالہ محمد آیت نے اپنی فیملی کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خطرہ ہے تو میں گھر واپس نہیں جاؤں گا۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، 1960 کے بعد سے یہ مراکش کا سب سے مہلک زلزلہ تھا جب ایک اندازے کے مطابق زلزلے میں کم از کم 12,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ترکی، جہاں فروری میں آنے والے طاقتور زلزلوں میں 50,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، یکجہتی کا اظہار کرنے اور مدد فراہم کرنے کی پیشکش کرنے والے ملکوں میں شامل ہے۔

مراکیش 9 اکتوبر سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں کی میزبانی کرنے والا ہے۔

آئی ایم ایف کے ترجمان نے، ان اجلسوں کے بارے میں کہا: "اس وقت ہماری واحد توجہ مراکش کے عوام اور حکام پر ہے جو اس سانحے سے نمٹ رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین