Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

نیٹو سربراہ اجلاس شروع، ترکی سویڈن کی رکنیت کے لیے مان گیا، یوکرین کی رکنیت ایجنڈے میں شامل

Published

on

Turkish President Recep Tayyip Erdogan and Swedish Prime Minister Ulf Kristersson shake hands with Nato chief Jens Stoltenberg looking on

نیٹو کے سربراہ ینس سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ترکی نے مغربی فوجی اتحاد میں سویڈن کی شمولیت کی مخالفت ترک کردی ہے،ترک صدر سویڈن کی نیٹو رکنیت کا معاملہ ترک پارلیمنٹ کو بھیجیں گے اور اس کی توثیق یقینی بنائیں گے،سویڈن کے وزیراعظم اولف کرسترسون نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں، یہ سویڈن کے لیے اچھا دن ہے۔

ترکی نے سویڈن کی نیٹو رکنیت کی درخواست کئی مہینوں سے روک رکھی تھی اور ترکی کا موقف تھا کہ سویڈن کرد جنگجوؤں کے پناہ دیتا ہے، نیٹو  میں کسی نئے ملک کی رکنیت کے لیے تمام 31 ممالک کا متفق ہونا ضروری ہے۔

رکن ملکوں کی جانب سے خیرمقدم

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پر ردعمل میں کہا کہ وہ صدر اردوان کی وعدے کا خیرمقدم کرتے ہیں اب انہیں اپنی پارلیمنٹ سے جلد توثیق کرانی چاہئے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ میں یورو اٹلانٹک علاقے کا دفاع بڑھانے کے لیے صدر اردوان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہوں اور وزیراعظم کرسترسون اور سویڈن کو نیٹو کے 32 ویں رکن کے طور پر خوش آمدید کہتا ہوں۔

جرمن وزیر خارجہ انالین بربوک نے ٹویٹ کیا کہ 32 ہم سب اکٹھے محفوظ ہیں۔برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے کہا کہ سویڈن کی شمولیت سے ہم سب محفوظ ہوں گے۔

نیٹو کے سربراہ نے ترکی کی رضامندی کا اعلان ویلنیوس، لتھوانیا میں ترک صدر اور سویڈش وزیراعظم کے درمیان مذاکرات کے بعد کیا۔

نیٹو چیف نے اس رضامندی کو تاریخی قدم قرار دیا لیکن سویڈن کی شمولیت کی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا کیونکہ اب پیشرفت ترک پارلیمنٹ پر منحصر ہے۔

سویڈن اور اس کا مشرقی ہمسایہ فن لینڈ جنگوں کے دوران غیرجانبداری کی طویل تاریخ رکھتے ہیں، تاہم پچھلے سال مئی میں دونوں ملکوں نے نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے کئی ماہ بعد اس سال اپریل میں فن لینڈ نیٹو کا رکن بن گیا۔

ترکی کو کیا ملا

نیٹو چیف سٹولٹنبرگ نے کہا کہ ترکی اور سویڈن نے ’ جائز سکیورٹی تحفظات‘ پر توجہ دی جس کے نتیجے میں سویڈن نے اپنا قانون تبدیل کیا، قانون تبدیلی کے نتیجے میں سویڈن نے کرد جنگجوؤں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے ) کے خلاف انسداد دہشتگردی آپریشن شروع کیا اور ترکی کو اسلحہ کی برآمد بحال کی۔

ترکی اور ہنگری ایسے دو نیٹو ملک ہیں جنہوں نے سویڈن کی نیٹو رکنیت کی توثیق ابھی کرنا ہے، ہنگری کے متعلق سوال پر سٹولٹنبرگ نے کہا کہ ہنگری نے واضح کیا ہے کہ وہ توثیق کرنے میں پیچھے نہیں رہیں گے، میرا خیال ہے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اس سے پہلے ترک صدر اردوان نے سویڈن کی نیٹو رکنیت کو ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے مذاکرات بحالی سے مشروط کرنے کی کوشش کی تھی، یورپی یونین نے یہ مطالبہ فوری مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ دونوں معاملات الگ الگ ہیں، تاہم ترکی کی سویڈن کے لیے ہاں کے بعد نیٹو کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سویڈن ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے منجمد مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششیں کرے گا۔

ترکی یورپی یونین کے لیے اچانک اہم کیوں؟

ترکی نے پہلی بار یورپی یونین کی رکنیت کے لیے 1987 میں درخواست کی تھی، لیکن صدر اردوان کی حکومت کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے یورپی یونین میں شمولیت کے مذاکرات منجمد کر دیئے گئے تھے، یوکرین جنگ کے بعد صدر اردوان نے ماسکو میں غیرمعمولی کردار ادا کیا، انہوں نے یوکرین کے اناج کی بحر اسود سےایکسپورٹ کا معاہدہ کرایا، روس نے کئی بار اس معاہدے سے نکلنے کی دھمکی دی لیکن ترک صدر کی کوششوں سے یہ معاہدہ برقرار ہے اور یوکرین اپنا غلہ ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہے، ترکی نے یوکرین کو مسلح ڈرون فراہم کر کے ماسکو کو ناراض بھی کیا ہے۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی کے کے پچھلے ہفتے دورے کے بعد ترکی  نے یوکرین کے پانچ سابق فوجی کمانڈرز کو کیف جانے کی بھی اجازت دی جس سے ماسکو شدید برہم ہوا، پچھلے سال ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی وجہ سے ماسکو کو امید تھی کہ یوکرین کے فوجی کمانڈر ترکی میں ہی موجود رہیں گے۔

نیٹو سربراہ اجلاس میں یوکرین کی رکنیت ایجنڈے پر

ویلنیوس میں نیٹو کی دو روزہ سربراہ کانفرنس شروع ہوگئی ہے اور یوکرین کی رکنیت کا معاملہ ایجنڈے پر ہے، تمام نیٹو رکن ممالک متفق ہیں کہ یوکرین دوران جنگ اتحاد کا رکن نہیں بن سکتا کیونکہ اس طرح نیٹو کا پورا اتحاد روس کے ساتھ حالت جنگ میں جا سکتا ہے۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے خود کہا ہے کہ وہ اس سربراہ اجلاس کے موقع پر رکنیت کی امید نہیں رکھتے لیکن چاہتے ہیں کہ یوکرین کی رکینیت پر نیٹو سربراہ اجلاس واضح اشارہ دے۔

مشرقی یورپ کے کئی ملک یوکرین کی فاسٹ ٹریک رکنیت پر زور دے رہے ہیں لیکن امریکا، جرمنی سمیت کئی ملک تذبذب کا شکار ہیں۔

صدر پیوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ یوکرین کی نیٹو رکنیت کے تمام سکیورٹی سٹرکچر پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے جو پہلے ہی نصف تباہ ہو چکا ہے، یوکرین کی نیٹو رکنیت ہمارے ملک کے لیے خطرہ ہوگی اور ہم سخت اور واضح ایکشن پر مجبور ہوں گے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین