Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

نیا جام صادق یا سانجھے کی ہانڈی؟ سیاسی لڑائی کس کروٹ بیٹھے گی

Published

on

کھیل کا میدان گلی محلے کا ہو یا ملکی اور عالمی سیاست کا ۔۔۔ اصول، قاعدے، چالیں، چالاکیاں کم و بیش ایک جیسے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بات حال ہی میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے مابین پیدا ہونے والے نئے تنازعہ کو دیکھنے کے بعد یاد آئی۔

سال 2021 کی آخری سہ ماہی میں جب عمران سرکار کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے یکجا ہوکر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تو ماضی کے بدترین حریف عمران خان کے مقابلے میں ایسے شیروشکر ہوئے کہ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی پارٹیز ہیں جنہوں نےایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے تھے اور پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگائے تھے۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے رخصت کرنے سے پہلے کمال مہارت اور بڑے وضعدارانہ انداز میں شراکت اقتدار کا فارمولہ بنا کر پورے سولہ ماہ یکسوئی سے حکومت کی۔ مشکل فیصلوں میں ایک دوسرے کو سہارا دیا۔ ایک دوسرے کے فیصلوں اور مجبوریوں کو اونرشپ دی۔

لیکن جب یہ اتحادی حکومت ختم ہوئی تو یکایک دونوں بڑی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی میں دیرینہ عداوت واپس آتی نظر آرہی ہے۔  دونوں کے درمیان بڑھتے فاصلوں کی ایک عمومی وجہ تو یہ بیان کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے یا پھر بہت زیادہ کمزور ہونے کی صورت میں پیپلزپارٹی پنجاب میں نون لیگ کے مخالف ووٹ بنک کو سمیٹنے کے لئے نئی پوزیشن لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی میں بھی نوازمخالف سیاسی رہنماوں کو پذیرائی ملنا شروع ہوگئی ہے۔ اور ان کے موقف کو پارٹی پلیٹ فارم پر بھی زیادہ نمایاں طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کی ہفتہ رفتہ کے دوران پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں غیرمعمولی سرگرمیوں نے کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اتحادی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت کی تشکیل کے عمل کے ساتھ ہی نون لیگ نے ان کے ساتھ دھوکہ شروع کردیا اور اسٹبلشمنٹ سے اپنی  ڈیل کرلی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا اسٹبلشمنٹ سے یہ گلہ ہے کہ اس نے نون لیگ کے ساتھ ڈیل کرکے پیپلزپارٹی کو عملا اگلے سیاسی سیٹ اپ سے فارغ کرنے کا پلان بنا لیا ہے تو یہ زیادہ درست بات ہوگی۔

سندھ میں پیپلزپارٹی اور اس سے وابستہ شخصیات کے خلاف کارروائیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ایک تو وفاق میں نگران حکومت کی تشکیل اور پھر نون لیگ سے دیرینہ تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی صورت میں ایک کے بعد ایک نئے وزیر کا اضافہ، پھر سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر فنڈز کا اجرا رک جانا۔ ان تمام باتوں پر پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اسے دھوکہ دے رہی ہے اور اس کام میں مسلم لیگ نون آن بورڈ ہے۔ انہی حالات میں پہلے کراچی اور پھر لاہور میں سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس طلب کئے گئے جن میں پارٹی ارکان کی زبان سے یہ ساری باتیں ریکارڈ پر لائی گئیں۔ بالخصوص لاہور کے اجلاس میں پارٹی ارکان کا اسٹبلشنمٹ اور نون لیگ کے خلاف رویہ انتہائی جارحانہ تھا۔

اس تمام ایکسرسائز کا مقصد اسٹبلشمنٹ اور نون لیگ کو یہ باور کرانا تھا کہ درون خانہ جو کھیل کھیلا جارہا ہے پیپلزپارٹی اس سے بخوبی واقف ہے۔ اسی لئے پیپلزپارٹی نے نوازشریف کے بدترین مخالف اور عمران خان کے حامی چوہدری اعتزازاحسن کو بطور خاص سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بلایا۔ اور قیادت نے ان کی پذیرائی کرکے اپنے دیگر کارڈز بھی شو کردئیے۔

 اس جارحانہ سیاست کی قیادت پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو کو سونپ کر خود آصف زرداری نے اپنی مفاہمتی سیاست کی پٹاری کھول لی۔ ذمہ دار پارٹی ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے بلاول بھٹو اور پارٹی رہنماؤں کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولنے سے سختی سےمنع کردیا اور فیصلہ کیا گیا کہ نون لیگ سمیت ان تمام سیاسی گروپس کو نشانہ بنایا جائے جن پر اسٹبلشمنٹ کی خاص عنایات ہورہی ہیں یا ہونے جارہی ہیں۔

ایک پارٹی رہنما کے بقول ہم  ’ جن‘ کو کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ یہ خطرے کا کام ہے تاہم اس کے چہیتے طوطے کی گردن ضرور مروڑیں گے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے اس سلوک سے پارٹی کے اندر پنجاب کی وہ لیڈر شپ بہت خوش ہے جو نون لیگ کے ساتھ گذشتہ پندرہ سال سے جاری مفاہمتی سیاست کو پارٹی کے لئے زہرقاتل سمجھتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نون لیگ کے ساتھ  ’جپھی پالیٹیکس‘نے پنجاب میں پارٹی کو تباہ کردیا۔ خود اعلی پارٹی قیادت سندھ میں مسلسل پندرہ سال کی حکومت پر اکتفا کرکے بیٹھ گئی جبکہ پنجاب میں پارٹی کا صفایا ہوگیا اسی خلا کو پر کرکےعمران خان نے پنجاب میں پاؤں جمائے اور آج وہ ملکی سطح پر نوازشریف کا سب سے بڑا حریف بن گیا ہے۔ لہذا نواز مخالف بیانیہ اختیار کرنے کی صورت میں ہی پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔

پنجاب سے پارٹی رہنما ندیم افضل چن، سید حسن مرتضی،رانا فاروق سعید، فیصل میر اور دیگر تو کھل کر کہتے ہیں کہ نگران حکومتیں دراصل نون لیگ کی حکومتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں انہیں سیاست کرنے کے لئے میدان فراہم نہیں کیا جارہا۔ جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں آنا چاہتےہیں انہیں روکا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس پالیسی سے اسٹبلشنمٹ اور نون لیگ پر دباؤ آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی نگران وفاقی حکومت کو سیاسی پس منظر رکھنے والے وزرا شامل نہ کرنے کا باضابطہ خط لکھ دیا۔

نون لیگ کی سابقہ اتحادی جماعت کی طرف سے ایسے الزامات تحریک انصاف کے انتخابی عمل پر تحفظات کو مزید تقویت دیں گے۔ ایسے میں جہاں نگران حکومتوں کے لئے کام کرنا مشکل ہوجائے گا وہیں انتخابات کو تمام فریقین کے لئے قابل قبول بنانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی آزمائش سے دوچار ہوگا۔

عالم یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے بابائے سیاست نے لاہور میں جاتی عمرا کے پہلو میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ بیٹے کو نون لیگ پر براہ راست اور اسٹبلشمنٹ پر بالواسطہ طور پر ہلکی پھلکی سیاسی گولہ باری پر لگا دیا ہے جبکہ خود مفاہمتی مشن پر چل نکلے ہیں۔ کبھی چوہدری شجاعت سے ملنے ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور کبھی دیگر سیاسی رہنماؤں کو بلاول ہاؤس بلا لیتے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں جو کیک بنے گا وہ اکیلے کوئی نہیں کھائے گا۔ سب کو اس میں سے حصہ دینا پڑے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ نون لیگ اور اسٹبلشمنٹ پیپلزپارٹی کے ان گلوں شکووں کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ کیا اسٹبلشمنٹ اور نون لیگ سندھ سے بھی کوئی نیا جام صادق تلاش کرکے پیپلزپارٹی کی پکی چھٹی کرادیتے ہیں یا پھر سولہ ماہ کی اتحادی حکومت کے ماڈل کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین