Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

جمہوری اقدار نہیں، صرف ہتھیار، فرانس کے قومی دن پر مودی مہمان

Published

on

فرانس کے 14 جولائی ( کل) قومی دن کے موقع پر فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مہمان خصوصی مدعو کیا ہے اور ان کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا جائے گا لیکن صحافی، تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن فرانس مقدی کو قومی دن پر مہمان بنا کر اور ریڈکارپٹ استقبال کر کے، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو غلط پیغام دے رہا ہے۔

پچھلے ماہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ریاستی دورے پر آئے مودی کی میزبانی کی، بائیڈن کے دور حکومت میں کسی سربراہ حکومت کا یہ تیسرا سٹیٹ وزٹ تھا، اس دورے کو امریکی تجزیہ کاروں نے ’ مودی کو بہکانے کا آپریشن‘ قرار دیا اس دورے کے دوران مودی نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، سٹیٹ ڈنر کا مزہ چکھا اور دفاعی سودوں پر دستخط کئے۔

بمشکل تین ہفتے بعد فرانس بھی اس پر عمل پیرا ہے، فرانس کے صدر نے مودی کو قومی دن کی فوجی پریڈ کا مہمان چنا ہے، یہ فرانس کے قومی کیلنڈر کا سب سے اہم دن ہے، جو فرانس کی آزادی اور جمہوری عزم کی علامت ہے، اس دن کے موقع پر مہمان اس کو بنایا جاتا ہے جو مساوی حقوق کا علمبردار ہو۔

قومی دن کی پریڈ کے بعد فرانس کے بیئن الاقوامی شہرت یافتہ لوور میوزیم میں خصوصی ڈنر کا اہتمام ہے، جس میں 200 سے زیادہ مہمان شریک ہوں گے، بھارتی میڈیا اس موقع پر مشہور زمانہ پینٹنگ ’ مونا لیزا‘ کے ساتھ دونوں لیڈروں کے فوٹو سیشن کی قیاس آرائی کر رہا ہے۔

سفارتی اچھوت سے معزز مہمان تک

مودی کا دنیا بھر میں بہت اشتیاق کے ساتھ استقبال تو ہوتا ہے لیکن 2002 کے فسادات کا بھوت اب بھی ان کا پیچھا کرتا ہے، اس سال کے آغاز پر برطانوی میڈیا بی بی سی نے ’ دی مودی کوئسچن‘ کے نام سے دستاویزی فلم جاری کی، جس میں  مسلم کش فسادات میں مودی کے بحیثیت وزیراعلیٰ  تاریک ماضی کو دہرایا گیا۔

دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ان مسلسل الزامات کی تحقیقات کرتی ہے کہ مودی کی ریاستی حکومت پر ہندو ہجوم کی حوصلہ افزائی کرکے تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اور پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مسلمان گھرانوں پر حملے کے وقت ایک طرف رہیں۔ مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کئی دہائیوں سے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم پر بی جے پی  اور حکمرانوں کا ردعمل فوری تھا،دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کے لیے ایمرجنسی قوانین کا سہارا لیا گیا، دہلی یونیورسٹی کے طلبہ نے اس دستاویزی فلم کی سکریننگ کا انتظام کیا تو بجلی ہی منقطع کردی گئی، بی بی سی کے بھارت میں دفاتر پر انکم ٹیکس حکام نے چھاپے مارے، ان چھاپوں کو انسانی حقوق گروپوں نے ’ قانونی ہراسگی‘ قرار دیا۔

گجرات فسادات کے نتیجے میں مودی پر 2005 میں امریکا نے ’ مذہبی آزادیوں کی سنگین خ؛لاف ورزی‘ پر ویزا پابندی بھی عائد کی تھی، مئی 2014 میں مودی وزیراعظم بنے تو یہ پابندی ہٹا لی گئی، دس جاری رہنے والے فسادات میں تین برطانوی شہریت رکھنے والے مسلمان بھی مارے گئے تھے، اس پر برطانیہ نے مودی کا سفارتی بائیکاٹ بھی کیا تھا۔

بائیکاٹ اور پابندیوں سے لے کر سرکاری دوروں اور باوقار دعوتوں تک، مغرب نے ایسے موڑ لیے ہیں جنہوں نے مودی کے سفارتی اخراج سے لے کر میز پر معزز مہمان تک کے سفر کو قابل بنایا ہے۔

بھارت نے سستے تیل کے لیے یوکرین جنگ پر روس کی مذمت سے بھی گریز کیا، مغرب کے لیے انتہائی اہم ایشو ہونے کے باوجود اسے بھی نظرانداز کر دیا گیا کیونکہ مغرب کی جیوپولیٹیکل مجبوریاں ہیں، اسے اسلحہ بھی بیچنا ہے اور چین کے مقابلے کے لیے بھی بھارت کی ضرورت ہے، اسی لیے انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے معاملے پر بائیڈن اور ماکروں نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔

بھارت فرانس تعلقات میں اسلحہ کا کردار

فرانس کے صدر کی سرکاری ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ قوی دن کے موقع پر مودی کو فوجی پریڈ میں مدعو کیا گیا ہے، یہ دن فرانس بھارت سٹرٹیجک پارٹنر شپ کے 25 سال پورے ہونے پر بھی ایک علامتی اہمیت کا حامل ہے۔

بھارت نے 1998 میں جوہری دھماکے کئے تو امریکا نے اس پر پابندیاں عائد کیں، اس موقع پر فرانس اور بھارت کے درمیان سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان، دفاع، جوہری توانائی اور انسداد دہشتگردی پر تعاون شروع ہوا۔

بھارتی فوج، بحریہ اور فضائیہ کا 269 رکنی دستہ بھی فرانس کے قومی دن پر فوجی پریڈ میں شریک ہوگا، بھارتی فوجی دستے میں فرانس سے خریدے گئے رافیل طیارے بھی ہیں، جو فوجی پریڈ کے دوران فلائی پاسٹ کا حصہ ہوں گے۔

مودی کے دورے کے دوران بھی ہتھیار ایجنڈے کا سرفہرست حصہ ہیں، مودی کے دورے سے پہلے اسلحہ خریداری کے معاہدوں کی شہ سرخیاں شائع ہو رہی ہیں۔ مودی اس دورے کے دوران بھارتی بحریہ کے لیے 26 رافیل طیاروں اور تین سکارپیئن کلاس آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ کریں گے۔

بھارت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا امپورٹر ہے، اسلحہ کی خریداری اور فروخت پر نظر رکھنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق فرانس بھارت کا دوسرا بڑا اسلحہ سپلائر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارت، سرمایہ کاری ار ہتھیاروں کے باوجود فرانس بھارت تعلقات کا اصل محرک جیوپولیٹیکل ہے۔

فرانس بھارت پارٹنر شپ اسلحہ معاہدوں کی وجہ سے فروغ پا رہی ہے لیکن قومی دن پر مودی کو مدعو کرنے پر فرانس میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مودی کی ہدو قوم پرست سیاست، انسانی حقوق کی پامالی اور مودی کا ٹریک ریکارڈ، سب کچھ سامنے لایا جا رہا ہے۔ فرانس کا بایاں بازو اس پر سخت سوالات اٹھا رہا ہے اور مودی کو گیسٹ آف آنر بنانے کی مذمت کر رہا ہے۔

انسانی حقوق نے پسپائی اختیار کر لی

فرانسیسی اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز میں کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی خود ہندو قوم پرست ہونے کی دعویدار ہے اور آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے، وہی آر ایس ایس جو 1925 میں جرمنی کی نازی پارٹی ی طرز پر بنائی گئی، جس نے 1948 میں گاندھی کو قتل کرایا،ماکروں کی مودی کو دعوت ایک ’ مذاق‘ ہے، گاندھی کا بھارت اور ’ انسانی حقوق کا وطن‘ فرانس اس سے بہتر کا حق دار تھا۔

ایک اور کالم میں کہا گیا کہ مودی کو ایسے وقت میں دعوت دی گئی ہے جب مودی کی حکومت ’ جمہوری آمریت‘ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوے کا دعویدار ہے لیکن مودی کی حکومت میں ہر جمہوری ادارہ اپنی آزادی کھو رہا ہے۔ جمہوریت کو ’ ہولڈ‘ پر رکھ دیا گیا ہے، پارلیمنٹ ریکارڈنگ چیمبر سے زیادہ کچھ نہیں، سپریم کورٹ کے جج حکومت کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔

گجرات فسادات کے دوران بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے پولیس ہٹالی گئی تھی اور پولیس کو فسادات پر قابو پانے سے روک دیا گیا تھا، اس بات کا انکشاف کرنے والے پولیس افسر سنجیو بھٹ نہ صرف ملازمت سے برطرف کئے گئے بلکہ آج تک جیل بھگت رہے ہیں، مودی نے پولیس کو ہٹانے کے الزامات کی لمبے عرصے تردید کی،بھارتی سپریم کورٹ نے فسادات کی تحقیقات کے لیے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس نے دس سال تک رپورٹ ہی جمع نہ کرائی اور جب رپورٹ جمع ہوئی تو مودی کو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔

مودی کی بے گناہی کی رپورٹ 2012 میں آئی، اس کے نتیجے میں برطانیہ نے سفارتی بائیکاٹ ختم کیا اور امریکا نے ویزا پابندی ہٹائی، اس کے باوجود مودی اس سے کبھی پیچھا نہیں چھڑا سکے، بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں پہلے کبھی شائع نہ ہونے والی برطانوی حکومت کی دستاویزات تک رسائی حاصل کی گئی، جس میں مودی کو ان فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور ان فسادات کو نسل کشی کی مہم قرار دیا گیا۔

بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک سٹرا کا انٹرویو تہلکہ خیز تھا، جیک سٹرا نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین دعوے تھے کہ مسٹر مودی نے پولیس کو پیچھے ہٹانے اور ہندو انتہا پسندوں کی خاموشی سے حوصلہ افزائی کرنے میں ایک فعال کردار ادا کیا تھا،یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے پولس کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے سیاسی مداخلت کی ایک مثال تھی۔

گجرات کے 2002 کے فسادات کے دوران گجرات پولیس میں اہم عہدے پر کام کرنے والے سنجیو بھٹ نے دھماکہ خیز گواہی دی تھی، سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ کی تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ جب تشدد پھوٹ پڑا تو مودی نے اعلیٰ انتظامی اور سیکورٹی حکام کی میٹنگ میں کہا کہ ٹرین میں آگ لگنے سے ہندو یاتریوں کی ہلاکت پر ہندوؤں کو غصہ نکالنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور یہ کہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جائے۔

سنجیو بھٹ، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں مقدمہ ہار گئے، جس نے فیصلہ دیا کہ سابق پولیس افسر نے میڈیا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، اور اسے این جی اوز کی طرف سے پڑھایا جا رہا تھا۔

مودی کے عہدے پر منتخب ہونے کے ایک سال بعد، سنجیو بھٹ کو بھارتی پولیس فورس سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسے 1990 کے ایک اور کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اور 2019 کے فیصلے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ عمر قید کی سزا کو معطل کرنے کی درخواست بھی  ہار چکے ہیں۔

ان کی بیٹی کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو انصاف اور احتساب کے لیے بولنے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ میرے والد 2002 کے گجرات قتل عام میں مودی کی ملی بھگت کے واحد زندہ گواہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 21 سالوں سے، میرے والد ان ہزاروں لوگوں کے لیے انصاف کے لیے انتھک جدوجہد کر رہے ہیں جو اس حکومت کا شکار ہوئے ہیں۔ان کی واحد فکر متاثرین کو انصاف ملنا ہے۔ ہماری فکر والد  کے لیے انصاف حاصل کرنا ہے۔

متعدد ماہرین کے مطابق، مودی کے دورہ فرانس کے دوران ماکروں سے انسانی حقوق پر بات کرنے کی توقع نہیں ہے۔

سنجیو بھٹ کی بیٹی کہتی ہیں کہ بھارت کو جغرافیائی سیاسی وجوہات کی بنا پر سب سے آگے رکھا جا رہا ہے، انسانی حقوق نے پسپائی اختیار کر لی ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوگی اگر فرانسیسی حکومت کو یہ معلوم نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے نظر انداز کر رہے ہیں اور متعلقہ سوالات نہ پوچھ کر، اسے جوابدہ نہ ٹھہرا کر، وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے بہت غلط پیغام جاتا ہے کہ فرانس مودی کی مطلق العنانیت کی حمایت کرتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین