Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

پاکستانی سیاست کے روڑے

Published

on

پاکستانی سیاست بھی عجیب پیچ و خم پر مبنی ہے، کسی موڑ پر سیاسی جماعتیں جب ناقابل قبول ہو جائیں تو چاہے وہ دودھ کی دھلی ہوں یا  من و سلویٰ لے کر اتری ہوں، باعیب ہی رہتی ہیں،اگر آنکھ کو بھا جائیں تو جو ہوجائے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے ساتھ 2017 سے 2018 کے بیچ میں جو کچھ  ہوا کوئی نہیں جانتا کیونکہ ہماری عوام کی  سیاسی یادداشت انتہائی مختصر ہے اس لیے اسے پچھلے حوالے دینا  بے کار ہے، جب یہ بحث چل پڑی کہ میاں نواز شریف  نے بیٹے سے تنخواہ کیوں لی؟ ایون  فیلڈ میں کیا کیا کہانیاں لکھی نہیں گئیں؟

العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیا نے کیا توجیحات پیش نہیں کیں؟ لیکن یہ تمام مقدمات، تما م ثبوت اور تمام دلائل اس ماہ ردی کی ٹوکری میں  چلے گئے جب ایک ایک کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ناصرف نیب کی کارکردگی کا پردہ چاک کردیا بلکہ ان دس والیم میں کیا درج تھا جو نواز شریف پرالزامات کی صورت میں کاغذوں پر سیاہ کیے گئے تھے، آج وہ ایک ایک کر کےمنطقی انجام پر پہنچ رہےہیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ کیسز درست تھے ؟یا ان کی تحقیقات درست تھیں ؟یا پھر انصاف کا تازہ دم پراسس شروع ہوا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کیے جارہے ہیں؟ یقیناً یا تو  پہلے انصاف نہیں کیا گیا یا اب نہیں کیا جارہا۔

فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی انھی سیاسی اندھیروں میں سفر کر رہی ہے جو کھڈے دوسری جماعتوں کیلئے کھودے گئے،ماضی کی طرح آج خود  بھی ابھی گڑھوں میں براجمان  ہے، خود نمائی کا سفرطویل نہیں ہوتالیکن تحریک انصاف کیلئےانتہائی مختصر رہا۔

ایک طرف تحریک  انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن جیسے  بوگس کیس میں بلے کا نشان نہ دینے کیلئےبلیک میل کیا جارہا ہےدوسری جانب الیکشن کمیشن کی توہین جیسے مقدمات میں جماعت کے سربراہ کے ٹرائل کی  تلوار بھی موجود ہے، لیکن کون نہیں جانتاکہ کس  پارٹی نے انٹرا پارٹی  الیکشن کے قانون کی پاسداری کی ہے۔

مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن کے جنوری 2023 میں  انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے فائنل نوٹس کے باوجود جون میں انتخابات  کروائے تقریبا ہر جماعت میں اعلیٰ عہدوں امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں تو طریقہ کار کو فالو کوئی جماعت بھی نہیں کرتی لیکن اس مرتبہ نزلہ تحریک  انصاف پر گررہاہے، ہر چیزناپسند قرار دی جارہی ہے۔

ان تمام حالات میں  دیگر جماعتیں  بھی بحالت مجبوری ہی انتخابی میدان میں قدم رکھ رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے طنز و نشتر بلاوجہ نہیں،  وہ بھی بخوبی جانتے ہیں  اقتدار ان کے پاس آتے آتے رہ گیا ہے، دوسرا انہیں سندھ میں  تنہا کرنے کی  کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ن لیگ  ، جے یو آئی ف، ایم کیوایم اتحاد یقیناً اسکے علاوہ کچھ نہیں۔

دوسرا جنوبی پنجاب اور بلوچستان  میں بھی امیدوار وعدہ کر کےانکے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، دوسری طرف جے یو آئی ف بھی اپنے لیےانتخابی ماحول مانگ رہی ہے، کس سے؟  یہ انھوں نے واضح نہیں کیا، تاہم سب کو پتہ ہے کہ اشارہ ادارے کی طرف ہے۔

موسمی حالات اور سکیورٹی تو محض  بہانہ ہے لیکن اس ملک کی سیاست میں یہ طے ہے جسے سیاست میں رکھنا ہے اسکا راستہ کلیئر کیسے کرانا ہے اور جس کا راستہ روکنا ہے اس میں روڑے کیسے اٹکانے ہیں۔

ثنا مرزا 2003ء سے میڈیا خصوصا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک دہائی سے زیادہ نامور ادارے جیو جنگ گروپ کاحصہ ہونےکے علاوہ وآئس آف امریکہ(واشنگٹن)، 92نیوز، 24نیوز، ریڈیو پاکستان اور متعدد ایف ایم ریڈیوز میں خدما ت انجام دے چکی ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین