Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

کبھی کسی نے جنازہ پڑھانے سے انکار کیا، آج فاتحہ پڑھنے والوں کا ہجوم، بلھے شاہ کے 266 ویں عرس کی تقریبات کا آغاز

Published

on

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔۔۔۔

برصغیر کے عظیم بزرگ و صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہ کے 266 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات کا آغاز قصور میں ہو گیا ہے، عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہیں گی۔

سترھویں اور اٹھارویں صدی کا دور اس خطے میں پر آشوب دور تھا۔ اس عہد نے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ ایک دن ایک رات میں نادر شاہ کے ہاتھوں ڈیڑھ لاکھ دلی والوں کے گلے کٹے لیکن اسی دور کی ایک اور عظمت بھی ہے، اس دور نے بلھے شاہ (1758-1680) اور وارث شاہ (1798-1722) کو جنم دیا۔

یہ اعزاز صرف بلھے شاہ کو ہی حاصل ہوا کہ ان کی آواز شمالی ہندوستان کے ہر کونے میں اور ہر لہجے میں گونجی۔ ان کی کافیاں اور دوہڑے پنجاب میں ہی نہیں سندھ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی عوام کے دل کی آواز بن گئے۔

بلھے شاہ سخی درویش کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ ان کے والد اچ شریف چھوڑ کر کچھ عرصہ ملک وال میں رہے جہاں بلھے شاہ کا جنم ہوا۔لیکن چند مہینوں میں ہی پنڈپانڈو ضلع لاہور (قصور کاہنہ روڈ پر واقع) چلے گئے جہاں انہوں نے مسجد کی امامت اختیار کر لی اور بچوں کو پڑھانے لگے۔

بلھے شاہ کا بچپن اسی گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ گاؤں میں امام مسجد کی حیثیت دوسرے دستکاروں کی طرح ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بلھے شاہ نے زندگی کو بچپن ہی سے پسے ہوئے عوام کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ یہیں ان کے ساتھ وابستہ پہلی کرامت کا ذکر آتا ہے۔

ان پر جب الزام لگا کہ انہوں نے اپنے مویشیوں کی نگرانی نہ کی اور گاؤں کے زمین دار جیون خان کی فصل اجاڑی تو بلھے شاہ نے فصل کو پھر ہری بھری کر دیا۔ یہ واقعہ تھا یا عوام کی بلھے شاہ سے محبت میں بنائی گئی داستان لیکن ایک حقیقت ہے کہ بلھے شاہ نے پنجابی میں فکروفن کی اجڑی ہوئی فصل کو پھر سے لہلہا دیا۔

انہوں نے مذہبوں کے ملبے کے نیچے دبے انسانوں کے لیے انسانیت کے لیے ایک نئی کھیتی بوئی۔

بلھے شاہ نے قصور کے مشہور زمانہ معلم حافظ غلام مرتضے کے مدرسے سے قرآن، حدیث، فقہ اور منطق کی تعلیم پائی۔ ان کی ان علوم پر دسترس کا ثبوت ہے کہ انہیں اپنے استاد کے مدرسے میں پڑھانے کی دعوت دی گئی۔

لیکن علم کی کتابی دنیا نے ان کی بے چین فکر کو ٹکنے نہ دیا اور وہ مجذوبانہ حالات میں جابجا گرداں رہے۔ انہوں نے بر ملا کہا کہ ۔۔۔ علموں بس کریں اویار۔ اکو الف تیرے درکار

کہتے ہیں اسی مجذوبانہ حالت میں ان کے منہ سے نکلا ’میں اللہ‘ اور کوتوال انہیں دربار فاضلیہ کے شیخ فاضل الدین کے پاس لے گئے جنہوں نے بلھے شاہ کا دفاع کرنے کے لیے لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے کہ یہ الھا (کچا) ہے۔ اس سے کہو کہ شاہ عنائیت کے پاس جائے اور پک کر آئے۔ اور یہیں سے اس عظیم رشتے کا آغاز ہوا جس میں بلھے شاہ نے اپنی اعلیٰ سید ذات کو ٹھکرایا اور اپنی تخلیق نو کی۔

ان کے مرشد شاہ عنایت آرائیں ذات کے تھے جو سادات سے کم سمجھی جاتی تھی۔ بلھے شاہ کو جب اس پر طعنے دیئے گئے تو انہوں نے کہا کہ ’جے کوئی سید آکھے دوزخ ملن سزائیں۔۔ جے کوئی سانوں کہے ارائیں بہشتیں پائیں‘۔ اگر شاہ عنائت کبھی کسی بات پر خفا ہوئے تو بلھے شاہ نے اپنی شاعری کے الفاظ میں رقص کناں ہو کر (تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا) یا حقیقی طور پر رقص کرتے ہوئے انہیں منایا۔

بلھے شاہ سے پہلے بھی اہل طریقت اور اہل شریعت کی کشمکش جاری تھی۔ شاہ حسین نے بھی کہا تھا کہ مجھے قاضی اور ملا کے دیئے مشورے راس نہیں آتے لیکن جس جرات اور دلیری سے بلھے شاہ نے مذہب کے ٹھیکیداروں کو رد کیا اس کی مثال سلطان باہو اور وارث شاہ کے علاوہ نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ ہی حال میں۔

انہوں نے ملاؤں کی اصلیت بیان کرتے ہوئے کہا:

ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت
لوکاں کردے چاننا آپ ہنیرے وچ
(ملا اور مشعل بردار ایک جیسے ہیں کہ لوگوں کو روشنی دیتے ہیں اور خود اندھیرے میں رہتے ہیں۔)

یہ صرف بلھے شاہ ہی تھا جس نے مسجد سے بھاگ کر ٹھاکر کے دوارے جانے کا اعلان کر کے رام اور رحیم کے جھگڑے کو ختم کر دیا۔

جاں میں سبق عشق دا پڑھیا مسجد کولوں جیوڑاڈ ریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا جتھے وجدے ناد ہزار

(جب میں نے عشق کا سبق پڑھا تو مسجد سے دل ڈر گیا۔ میں ہندو ٹھاکر کے دوارے چلا گیا جہاں ہزاروں ناد گونجتے ہیں۔)

بلھے شاہ نے اورنگزیب کی تنگ نظر دیکھی، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی رہنما شہباز خان کی چیرہ دستیاں برداشت کیں۔ اپنے ہی مہربان مولوی محی الدین کی زبان سے قوالی کے خلاف فتویٰ سنا پھر ان کو پچھتا کر فتویٰ واپس لیتے دیکھا۔ شہر بدری کے احکام سنے، دوسروں کے ڈیروں پر زندگی کے مشکل دن بھی کاٹے۔

لاہور اور قصور کو بار بار تباہ ہوتے دیکھا۔ سکھ جہادی بندہ بہادر کی تباہیوں کا تجربہ کیا اور پھر بندہ بہادر کے بیٹے کو اسی کی گود میں بٹھا کر اس کے ہاتھوں سے بوٹی بوٹی کروانے کی دردناک داستان سنی، اپنے زمانے کے ہر بادشاہ کے ہاتھوں سگے بھائیوں اور بھتیجوں کے قتل ہونے کا بار بار دہرایا جانے والا ڈرامہ دیکھا، بیٹے کو باپ اور بیٹی کو ماں کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا اور زمانے کے اسی الٹ پلٹ ہوتے شب و روز میں زندگی کا راز پایا۔

الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے

(الٹے زمانے آگئے ہیں اور اسی سے ہم نے سجن یا زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے اتنے بدلے ہیں کہ کوے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو فتح کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)

وہ زندگی میں ہر جگہ کشمکش دیکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جاری جنگ کو حلوائی کی دکان پر رکھی مٹائیوں کی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں بھی (کپوری ریوڑی کیونکر لڑے پتا سے نال)۔

لیکن بلھے شاہ اس کشمکش کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں۔
کتے رام داس کتے فتح محمد ایہوقدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا وچوں نکل پیا کوئی ہور

(کہیں اس کا نام رام داس ہے اور کہیں فتح محمد۔ لیکن ان ظاہری جھگڑوں کو ختم کر دیا جائے تو اصل مسئلہ کوئی اور ہے۔)

ان کی جسمانی موت پر ملاؤں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کے ان کے امر ہونے پر مہر تصدیق کر دی۔ بلھے شاہ نے تو خود کہا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور‘ (بلھے شاہ ہم مرنے والے نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے)۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین