Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

مسلم لیگ ن 16 سال بعد سمجھدار ہوگئی؟

Published

on

ملک کی کم و بیش تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2024 سے قبل اپنے انتخابی منشور پیش کردئیے ہیں تاہم ان میں سب سے زیادہ زیربحث مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے منشور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں جماعتیں قومی منظر نامے پر گزشتہ تین دہائیوں کے مختلف ادوار میں برسراقتدار رہی ہیں۔ اس لئے عوام دیکھ رہے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں نے اپنے سابقہ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی سیاست میں اپنے لئے کون سی ترجیحات کا تعین کیا ہے۔

عمومی طور پر اس وقت پاکستان کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک تو ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور دوسرے معاشی بحران۔  لیکن یہاں معاملہ وہی ہے کہ انڈا پہلے تھا یا مرغی۔ یعنی یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ سیاسی استحکام کے بعد معاشی استحکام آئے گا یا ملک کو معاشی استحکام سے ہمکنار کرنے سے سیاسی استحکام خود بخود پیدا ہوجائے گا۔ جبکہ سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے بھی مختلف نظریات ہیں کہ اس کا سبب سیاستدانوں کی نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے یا پھر سول ملٹری تعلقات میں پائی جانے والی دیرینہ فالٹ لائن ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیتی ؟

  پاور پالیٹکس میں مقتدرہ کے ستائے سیاستدان توغیرسیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت اور اس کے نتیجے میں سیاسی بحران کو ملک کے حالیہ معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جیسے کہ ہم میاں نوازشریف کی تقاریر دیکھ رہے ہیں کہ جن میں وہ تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں  2016 میں ان کی حکومت کو پانامہ لیکس کے بعد نہ گرایا جاتا تو ملکی معیشت ٹیک آف کر چکی تھی اور پاکستان نے چند سالوں میں ایشئین ٹائیگر بن جانا تھا۔

اڈیالہ جیل میں قید تحریک انصاف کے بانی سابق وزیراعظم عمران خان  بھی اس حوالے سے نوازشریف کے ساتھ ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں۔ ان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کو جنرل باجوہ نے اپنی ذات کی تسکین کے لئے گرایا وگرنہ ان کے دور میں پاکستان کی برآمدات ریکارڈ حد کو چھوچکی تھیں، گروتھ ریٹ مثالی تھا وغیرہ وغیرہ ۔ پیپلزپارٹی کی بات کریں تو وہ بھی 2013 کے انتخابات کو آراو الیکشنز کہہ کر دھاندلی کا الزام دیتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ سی پیک، گوادر پورٹ جیسے معاشی گیم چینجر منصوبے انہی کی اختراع ہے۔ اگر انہیں سیاست سے باہر نہ کیا جاتا تو وہ ایران سے گیس بھی لے آتے اور آج تک سی پیک بھی مکمل ہوچکا ہوتا۔ گویا ماضی کی تینوں بڑی جماعتیں مقتدرہ کو سیاسی عدم استحکام الزام دے کر اسے ملک کی معاشی بدحالی کا سبب قرار دیتی ہیں۔

مقتدرہ کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت اولین ترجیح معاشی ایجنڈا ہونا چاہئیے۔ اور اگر ملک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے تو سیاسی استحکام بھی آجائے گا۔

 دیکھنے کی بات ہے کہ ان تینوں سابق حکمران جماعتوں کے منشور میں معاشی ایجنڈا سرفہرست ہے۔ تینوں جماعتوں کے منشور کے نوے فیصد حصے ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کے فارمولوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں عوام کے لئے بجلی، گیس کی قیمتوں میں کمی اور آمدن بڑھانے کے منصوبوں کا خاکہ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گڈ گورننس کے ذریعہ مہنگائی کے ستائے عوام کو گراں فروشی سے بچا کر مہنگائی کی شرح نیچے لائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ایسی معاشی پالیسیاں دی جائیں جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ عوام کی آمدن اور ان کی قوت خرید بڑھا کر انہیں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔

      مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اپنے اپنے منشور میں عوام کے لئے ریلیف کے بڑے بڑے اعلانات کئے ہیں۔ پیپلزپارٹی، نون لیگ سے قبل استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ علیم خان بھی غریب عوام کے لئے 300 یونٹ تک مفت بجلی کے اعلانات کرچکے ہیں لیکن اس پر معاشی ماہرین میں بحث جاری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں بندھی ہوئے مستقبل کی حکومتیں کیسے سبسڈی دے سکیں گی ؟

مسلم لیگ نون کے منشور میں تین نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ لگتا ہے مسلم لیگ نون کو جو بات 2008 میں سمجھائی جارہی تھی سولہ سال مار کھانے کے بعد اب انہیں اس کی سمجھ آئی ہے۔ 2008 میں جب 18 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کی کمیٹی بنائی گئی تو اس کمیٹی نے صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے، صوبوں کو وزارتوں کی منتقلی اور این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل نو جیسے بڑے فیصلے اتقاق رائے سے کرلئے گئے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ آرٹیکل 58 ٹوبی کے خاتمے کے باوجود آرٹیکل 62 اور 63  موجودہ شکل میں منتخب حکومتوں کے سر پر لٹکتی تلوار ہے اس لئے اس پر نظرثانی کی جائے۔ مسلم لیگ نون ان دونوں دفعات کو اسلامی شقیں قرار دیتے ہوئے ان کے دفاع میں کھڑی ہوگئی۔ اسی طرح نیب کو ختم کرنے کی تجویز بھی مسترد کردی گئیں۔ بنیادی مقصد اپنے دائیں بازو کے ووٹ بنک کو خوش کرنا تھا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ پہلے یوسف رضا گیلانی اور پھر خود میاں نوازشریف بھی آرٹیکل 62 ، 63 کا شکار ہوئے۔ نیب نے بھی میاں صاحب سے خوب محبت کا اظہار کیا تو اب نون لیگ نے نہ صرف نیب کو یکسر ختم کرنے بلکہ آرٹیکل 62 ، 63 میں ترامیم کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنا لیا ہے۔

مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے اپنے اپنے منشور میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی بات کی ہے جس میں کشمیریوں اور فلسطینی بھائیوں کی حمایت اور بھارت سے اچھے تعلقات کی باتیں کی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں۔ غریب آدمی معاشی مسائل کی دلدل میں اس قدر دھنس چکا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں سویلین بالادستی اور خارجہ پالیسی کےاہم ترین ایشوز پر کھل کربات کرنے یا تو ہمت نہیں ہوئی یا پھر انہوں نے بھی اس تھیوری کو مان لیا ہے کہ پہلے معاشی استحکام کے لئے کام کیا جائے اور جب عوام کی روٹی روزی کے مسائل حل ہوں گے تو ملک میں سیاسی استحکام خود بخود آجائے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین