Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

سیاسی اضطراب اور معاشی خطرات

Published

on

الیکشن کی آمد آمد ہے ۔ 8 فروری 2024ء کو عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے ۔کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب اگلے مرحلے میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے ۔الیکشن  کے  اعلان کے بعد کسی حد تک سیاسی بے یقینی میں کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی سیاسی  عدم استحکام مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بازگشت اب بھی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف خود کو دیوار سے لگائے جانے کے گلے شکوے کر رہی ہے ۔پیپلزپارٹی کو بھی تحفظات ہیں ۔ایسے میں اگر عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ بات طے ہے کہ اِن نتائج کو سوائےجیتنے والی جماعت کے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔

بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف پر کڑا وقت خود اُس کے کرموں کی وجہ سے آیا ۔پھر رہی سہی کمی انٹرا پارٹی انتخابات نے پوری کردی ۔پارٹی کے انتخابات شروع سے ہی متنازع رہے۔کوئی  اُمیدوار  نہیں تھا۔صرف بانی پی ٹی آئی کا من پسند اُمیدوار تھا جس کو چیئرمین پی ٹی آئی بنا دیا گیا جس کے بعد انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اُٹھائے گئے اور منحرف رکن اکبر ایس بابر نے اِس معاملے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کردیا، الیکشن کمیشن نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ تحریک انصاف نے جانبدار الیکشن کروائے جس کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔ظاہر ہے اِس کے بعد بلے کا نشان جماعت سے چھین لیا گیا۔جس  کو سازش کا رنگ دیا گیا ۔اور پی ٹیا آئی وکلا نے معاملے کو عدالت میں چیلنج کردیا  اور  اِس کیلئے پشاورہائی کورٹ کو منتخب کیا گیا کیونکہ تحریک انصاف کو کسی اور صوبے کی عدالت پر "بھروسہ” نہیں تھا۔بہر کیف پشاور ہائی کورٹ نے عارضی ریلیف دیتے ہوئے بلے کے نشان کو بحال کردیا ہے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر  الیکشن کمیشن کے فیصلے  پرحکم امتناع جاری کیا، عدالتی فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے  تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔عدالت نے کہا ہےکہ  چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے یعنی یہ دائمی ریلیف نہیں ہے ممکن ہے ڈبل بینچ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردے ۔اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو پھر بھی تحریک انصاف کے پاس سپریم کورٹ جانے کا در کھلا ہوگا۔اور فرض کریں  سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے توپھر یہ شور مچایا جائے گاکہ پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر رکھنے کی تیاری کرلی گئی ہے یعنی اِس صورت میں بھی سیاسی بے یقینی کے بادل ختم نہیں ہوں گے بلکہ وہ پورے آب و تاب کے ساتھ برستے ہوئے نظر آئیں گے۔ملکی معیشت کسی صورت بھی اِس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کوئی نیا سیاسی بحران جنم لے ۔کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی کمزور ستونوں پرکھڑی ہے ۔دیکھا جائے تو سیاسی اور معاشی بحران کو جنم دینے  میں کسی ایک جماعت کا کردار نہیں بلکہ ساری برسر اقتدار آنے والی جماعتیںا اس کی ذمہ دار ہیں ۔جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو مہنگائی نےسر اُٹھانا شروع کردیا۔ترقیاتی منصوبوں کے جال بچھنے کی شرح محدودہوگئی ۔اور یہاں تک کہ ملک کے ڈیفالٹ ہوجانے کی بازگشت سنائی دینےلگی ۔اِسی کو جواز بنا کر پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت کابذریعہ عدم اعتماد بوریا بستر گول کیا۔یہ دعویٰ کیا گیا کہ پی ڈی ایم تحریک انصاف کی معاشی نالائقیوں کو دور کرکے ملکی معیشت کو پٹری پرلے آئے گی ۔لیکن یہاں بھی معاشی پالیسیوں کی کمزوریوں کو دور نہ کیاجاسکا۔معیشت کی وزارت کے  قلمدان کو  لے کر مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار میں شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی اور اِس کشیدگی  نے آئی ایم ایف پروگرام کو بھی شدید متاثر کیا ۔پھر یہاں تک کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو مداخلت کرنا  پڑی اور آئی ایم ایف سے خود مذاکرات کرنے پڑے جس کے بعد ایک بارپھر سے آئی ایم ایف معاہدہ ٹریک  پر آگیا اور پاکستان کو قرض مل گیا ۔یوں عارضی طور پر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا لیکن  اِس سب کے باوجود ملکی معیشت کی حالت نازک رہی ۔پی ڈی ایم حکومت کا معیشت درست کرنے کا دعویٰ بھی کھوکھلا نکلا۔وہ اسحاق ڈار جس سے ن لیگ کو بڑیا امیدیں وابستہ تھیں وہ اُمیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے نظر آئے شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ 2013 ء کی معاشی پالیسی سے باہر ہی نہ نکل سکے ۔وہ اس بات کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے کہ چار پانچ سال میں معاشی معاملات کی نوعیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک میں معاشی اور سیاسی بے یقینی کی فضا پیدا  کرنے کا سبب بنی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد بھی  کوئی بعید نہیں کہ نئی آنے والی حکومت  معاشی اور سیاسی بحرانوں پر قابو پا سکے گی ۔عالمی بینک بھی ایسی ہی صورتحال کو واضح کر رہا ہے ۔عالمی بینک کی رپورٹ کے  مطابق پاکستان میں الیکشن کے بعد نئی حکومت متعدد اقدامات واپس لے سکتی ہے، منظم مفاد پرست طبقہ تیزی سے ضروری اصلاحات کو واپس لے سکتا ہے، منظم مفاد پرست طبقے کے مفاد کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز کو خطرات زیادہ ہیں، نئی حکومت گیس، توانائی اور ٹیکس سے متعلق اقدامات ختم کرسکتی ہے جبکہ سبسڈی، تجارتی ٹیرف اور جائیدادوں پر ٹیکس وصولی بھی ختم ہوسکتی ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مستقبل کی حکومت کو بنیادی اصلاحات اور ترجیحات کا علم نہیں ہے ، آئندہ الیکشن کے بعد سیاسی دباؤکی وجہ سے گورننس کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہوسکتےہیں، سیاسی وجوہات کے سبب  مالی پابندیاں ختم ہوسکتی ہیں، مشکل اصلاحات پرعملدرآمد جاری رکھنے کا وعدہ  بھی  خطرے میں پڑ سکتا ہے۔صرف یہی نہیں عالمی بینک کی رپورٹ آئی ایم ایف سے معاہدے کو بھی ختم کرنے کےخدشے کو ظاہر کر رہی ہے ۔

رپورٹ  کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کے خاتمے کے خطرات بھی بڑھ چکے ہیں ۔  اسٹینڈ بائی معاہدے کے اختتام پرپاکستان کے ذخائرڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے برابرہوں گے۔جب  آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہونے کے بعد اضافی بیرونی مدددرکار ہوگی۔ یعنی نئی حکومت کیلئے اقتدار کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ وہ اب تک ٹھوس معاشی پلان نہیں  دے سکی،رہی بات پی ٹی آئی کو تو اُس کے پاس معاشی پلان نہ پہلے تھا نہ اب ہے ۔سیاسی جماعتوں کے پاس اب تک کوئی ایسی مربوط اور مضبوط معاشی پالیسی نہیں جس سے معاشی مسائل کا ادارک ہوسکے ۔اب  کی بار جو بھی جماعت حکومت بنائے گی یا چاہے حکومت مخلوط کیوں نہ ہو کوئی اپنی ناکام کی  ذمہ داری  ایک دوسرے پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکے گا جیسے پہلے پیپلزپارٹی حکومت کے مزے لوٹنے  کےبعد معاشی اور سایسی ناکامیوں کا ملبہ ن لیگ پر ڈال کر چل نکلی تھی ۔اب جو بھی حکومت آئے  گی اُس کو معاشی چینلنجز سے نمٹنے کا باقائدہ خاکہ پیش کرنا ہوگا ورنہ معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر جاسکتی ہے ۔

معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ہونا ضروری ہے ۔لیکن یہ پیشگوئی بھی کی جا رہی  ہے کہ کوئی بھی جماعت تنہا حکومت نہیں بناسکے گی جس سے آزاد حکومت کا تصور پھر سے اپنی موت آپ مرجائے گا اور مخلوط حکومت بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی جس کے بعد سیاسی اضطراب اور بھی زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ وقت کا تقاضہ اب یہ ہے کہ کم از کم ملکی معیشت کے معاملے پر تمام سیاسی قوتیں اپنے آپسی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آ جائیں ۔میثاق معیشت اِس وقت ناگزیر ہے ۔ایک ایسی پالیسی کو تشکیل دیا جانا چاہیے جس کو 20 سال تک کیلئے لاک کردیا جائے ۔اور ویسے بھی معیشت کے معاملے پر تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ  کی بھی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے ۔آرمی چیف بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہے ۔حالیہ دنوں میں اِن کادورہ امریکا اِس کی ایک کڑی ہے ۔لیکن دیکھا جائے تو ملٹری کا معیشت کے معاملات سنبھالنا سول حکومتوں کی نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ سول حکومت اپنے کوتاہیوں  اور غلطیوں کا ازالہ کرے اور معیشت کو پاؤں پر کھڑے کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔

ِس کیلئے یہ بھی ضروری ہےکہ ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کیا جائے اور سیاسی فضاء کو مصلحت کی خوشبو سے معطر کیا جائے بصورت دیگر سیاسی بحران ایک مزید معاشی بحران کاہی سبب بنے گا  جس سے عالمی بینک پہلے ہی خبردار کر رہا ہے ۔

Continue Reading
2 Comments

2 Comments

  1. 34.01htb46n6mqvchd969b9kv8y71@mail5u.run

    مارچ 31, 2024 at 11:06 شام

    sed quia dolorem dignissimos excepturi nesciunt vel blanditiis nostrum in et. ut necessitatibus aut voluptate fuga dolorem dolor aut minima quidem aliquam consectetur nihil. qui facilis illo quos ut dolor vel. aperiam ad aperiam dolor hic ullam et labore dolor quasi omnis hic. nemo sunt consequatur sed non unde est asperiores labore possimus eveniet nobis optio repudiandae quos harum aliquam modi placeat error.

  2. 35.01htb46n6mqvchd969b9kv8y71@mail4u.lt

    مئی 10, 2024 at 3:23 شام

    et at magnam et provident asperiores ab porro. quod recusandae qui tempore qui quam consequuntur voluptatum ut sint molestias consequuntur quo suscipit aut hic pariatur. soluta sed nihil modi enim veritatis error alias. repellat sapiente repellat autem amet vero est placeat eos molestiae architecto debitis. cupiditate dolorum tenetur quibusdam et nemo et odio corporis cupiditate.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین