Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

تنازعات کے بعد تعمیر نوکا اضطراب

Published

on

Who is Imran Khan to say that Faiz Hameed should have an open trial, the reaction of security sources

حساس ادارے کے سابق سربراہ کی بظاہر نجی ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق مبینہ بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری کے بعد کورٹ مارشل کا عمل جہاں مجموعی ڈھانچے کے اندر گہری دراڑ کو نشان زد کرتا ہے وہاں یہی پیشقدمی کسی نئے افق کے طلوع کی نوید بھی سنا رہی ہے، تاہم پیش پا افتادہ تنازعات کے بعد کی تعمیر نو کو وسیع پیمانے پر پیچیدہ، جامع اور کثیرالجہتی عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس میں بیک وقت فوجی نظم و ضبط ،امن و امان کی بحالی، گورننس کی اصلاح ، اقتصادی ترقی ، سماجی انصاف اور سیاسی مفاہمت کو بہتر بنانے کی کوششیں سیاسی استحکام کی ضمانت بن سکتی ہیں ۔

پیر کے روز مختصر بیان میں ڈائریکٹرجنرل، آئی ایس پی آر نے بتایا ” آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو نجی ہاؤسنگ سکیم بارے شکایات کے ضمن میں مناسب تادیبی کارروائی کے علاوہ نومبر 2022 میں ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی متعدد مثالوں بارے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لئے تحویل میں لیا گیا۔ فیض حمید کے خلاف گزشتہ سال ٹاپ سٹی لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کمپنی کے مالک کو بلیک میل کرکے کچھ جائیدادوں کی ملکیت حاصل کی تھی “ ۔

میڈیا رپوٹس کے مطابق جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے ہمراہ چند دیگر(ریٹائرڈ)افسران کو بھی بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کاروائی کا سامنا ہے۔جمعرات کے دن فوجی ترجمان نے تصدیق کی کہ دو بریگیڈئیرز سمیت تین افسران کی گرفتاریاں بھی فیض حمید کے خلاف کارروائی سے منسلک ہیں ۔ فوجی ترجمان نے کہا ،جن ریٹائرڈ افسران نے فوجی نظم و ضبط کی خلاف وردی کرتے ہوئے ملی بھگت سے مخصوص سیاسی مفادات کے اشارے پر عدم استحکام کو ہوا دینے کی جسارت کی اُن کے خلاف تحقیقات تکمیل کے قریب ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے سیاسی و نفسیاتی پس منظر میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری حیرت انگیز پیش دستی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس سے قبل تمام تر لن ترانیوں کے باوجود کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو کورٹ مارشل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ اگرچہ یہ قدم سول ملٹری تعلقات میں غیر معمولی بحران کو سنبھالنے کی کوششوں کا جُز ہو گا لیکن یہی پیش رفت ملک کے اندر سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے امور کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پاور گیم کے نئے اصولوں کو ڈیزائین کرنے کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے۔

لاریب ،وہ اجتماعی محرکات جن پہ ہمارا اجتماعی نظام کھڑا ہے،انفرادی جبلتوں سے کہیں زیادہ کمزور ہیں،جو حصول دولت ، مقابلہ ، پیکار اور جذبہ سے متعلق ہیں ۔علی ہذالقیاس، سیاست میں مداخلت کے الزامات کے باوجود فوج ہمیشہ ملک کا سب سے زیادہ بااثر ادارہ ہونے کی وجہ سے آٹھ دہائیوں پہ محیط قومی تاریخ کے 30 سال سے زائد عرصے تک 240 ملین آبادی کے حامل ایٹمی ملک پر براہ راست حکمرانی کے ذریعے خارجہ پالیسی اور قومی بیانیہ پہ اپنی حتمی اجارہ داری رکھتی ہے ، اس لئے فیض حمید کی گرفتاری نئے سیاسی تمدن کے علاوہ ایسے سیکیورٹی آرڈر کی تشکیل کی طرف اشارہ کر رہی ہے،جو امریکی اثر و رسوخ سے معرا ہو گا۔

گویا یہی عوامل پیرا ڈائم شفٹ کے نازک مراحل کی منظر کشی کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں سینئر افسران کے خلاف کورٹ مارشل کے مقدمات اکثر جاسوسی کے الزامات کے تحت چلائے گئے لیکن حالیہ پیش رفت میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو ملک کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا ، لگتا ہے فوجی قیادت اِن اقدامات سے فوج اور آئی ایس آئی کے اندر نظم و ضبط کو بحالی کے ذریعے ملک میں ایسا سیاسی و سماجی توازن قائم کرنا چاہتی ہے جو پیراڈائم شفٹ کے مقاصد کی تکمیل سمیت مستقبل کے حوادث کے خلاف مزاحمت کا موثر میکانزم بن سکے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ فیض حمید جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی پی ٹی آئی اور ریاستی ڈھانچہ میں چھپے اُس کے سیاسی نیٹ ورک کا آرکیٹیکٹ تھا جو دراصل عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو ریگولیٹ کرنے کا متوازی نظام تھا ۔ ماضی میں فوج کے اندر اٹھنے والی کم و بیش چار بغاوتیں ادارہ جاتی ڈھانچہ تک محدود ہوا کرتی تھیں لیکن ترکیہ کے فتح اللہ گولن تحریک کی مانند متذکرہ ”سرگرمی“کو ایک ایسی مقبول سیاسی جماعت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی،جس کا نیٹ ورک انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے علاوہ سوشل میڈیا کی لامتناہی دنیا تک پھیلا ہوا تھا ۔

عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو ہٹا کر 2019 میں جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ اسی مقصد کی خاطر تعینات کیا کہ وہ پوری اپوزیشن کو ختم کرکے روسی صدر پوٹن کی طرح یک جماعتی آمریت قائم کرنے کی راہیں استوار کریں ، بعدازاں جب آرمی چیف کے مشورہ پر اکتوبر 2021 میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کرکے فیض حمید کو الیون کور کا کمانڈر اِس نیت سے مقرر کیا تاکہ جنرل باوجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں آرمی چیف بنا کر اپنے استبدادی منصوبہ کو عملی جامہ پہنا سکیں تو طاقت کی عنان ان کے ہاتھوں سے اُس وقت پھسل گئی جب اپریل2022 میں اپوزیشن نے عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت اعظمی سے ہٹا کے پورے پلان کو تہہ و بالا کر دیا ۔ چنانچہ فوج کے موجودہ سربراہ جنرل عاصم منیر کے چارج سنبھالنے کے چند دن بعد ہی فیض حمید کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لیکر طاقت کے مراکز کو مسخر کرنے کے لئے نئی ساخت کی مہمات شروع کرنا پڑیں جو بلآخر انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے پھندہ تک لے آئیں ۔

جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری اس لحاظ سے خاصی اہم ہے کہ ان کی سرگرمیاں موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ساتھ ادارے کے نظم و نسق اور مملکت کی سلامتی کے لیے بھی خطرے بن چکی تھیں ۔ اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو ہمارے سیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچہ پر عالمی طاقتوں کی جنگی مہمات کے اثرات ہی درحقیقت اِن پیچیدہ عوامل کا محرک بن رہے ہیں، بیس سالوں پر محیط امریکہ کی جنگ دہشت گردی کے اثرات دور رس اور کافی گہرے ہیں،اِسی جدلیات نے مملکت کے بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کے علاوہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کو کمزور کرکے مملکت کے بنیادی اداروں کو باہمی اعتماد کے فقدان اور داخلی تنازعات میں مبتلا رکھا ہوا ہے اور اسی خلیج کے اندر مہم جوئی کے خُوگر مملکت کو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگیوں کی آگ میں دھکیلنے لئے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح امریکہ کا مارشل پلان دوسری جنگ عظیم کے نتائج کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کا محرک بنا ، اسی طرح افغان جنگ کے نتائج کو تسلیم کرکے جنوب ایشیا میں تزویری توازن قائم کر لیا جاتا کیونکہ جنگ کی قیمت کو سمجھنا ہی جنگ کے بعد کے عرصے کے دوران آگے بڑھنے کے لیے لازمی ہوتا ہے خاصکر دشمنیوں کے خاتمہ کے علاوہ جنگ سے متاثرہ ممالک جیسے افغانستان میں تعمیر نوکے عمل میں تاخیر نے یہ ظاہر کیا کہ مسلح جھڑپیں ختم ہونے کے بعد سابق جنگجوؤں کی تحدید، تخفیف اسلحہ اور دوبارہ انضمام میں دیر نہ کرنا کتنا اہم ہوتا ہے مگر افسوس کہ افغان جنگ کے بعد عالمی برادری کی لاتعلقی اور سرد مہری کے علاوہ مغربی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کی قومی سلامتی کے پہلوؤں پر دباو بڑھانے کی حکمت عملی نے پورے خطہ کو وقف اضطراب کر دیا۔

اگرچہ بظاہر نو مئی کی ناکام بغاوت کے محرک فیض حمید کی گرفتاری کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کمانڈ مضبوط اور مورال بلند ہوا ، جس سے بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ اب ہم سیاسی استحکام کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں لیکن سطح کے نیچے ابھی کئی طوفان پوشیدہ ہیں اور قومی سلامتی کے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لئے درکار سیاسی ہم آہنگی کے حصول میں ذرا سی کوتاہی تضادات کی دھار کو زیادہ تیز بنا دے گی۔

اِدھر حالیہ تنازعات کے بعد کا ابتدائی ردعمل، پائیدار سیاسی اصلاحات اور صحت مند تبدیلیوںکو فروغ دینے کے لئے ناکافی ثابت ہوا۔ معاشی بحالی، جمہوریت کا فروغ ، عوامی شعبہ اور نظام عدل کی تعمیر نو اُن چند بڑے چیلنجز میں سے ہیں جن کا سامنا تنازعات کے بعد کے معاشروں کو درپیش رہتا ہے۔ قومی سلامتی بھی ، سیاسی مفاہمت، سماجی اور اقتصادی بہبود ، گورننس میں بہتری اور فیصلہ سازی کے عمل میں وسیع شرکت کی متقاضی رہتی ہے چنانچہ پائیدار سیاسی استحکام کے لئے سیاسی و عسکری قیادت، جوڈیشری اور اعلیٰ انتظامی افسران کے علاوہ سماجی رہنماوں اور دانشوروں کی مربوط مساعی ہمیں اس دلدل سے نکال سکتی تھی جس دلدل میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ۔

یہ جاننا ابھی بہت جلد ہے کہ بغاوت کی ناکام کوشش نے سسٹم کے اندر طاقت کے تال میل کو کس طرح متاثر کیا ، جو آج ایک مربوط قوت کے شکل میں موجود نہیں بلکہ ایک نیم فوجی بغاوت کے چیلنج پر قابو پانے کے بعد سیاسی قیادت کی طرف سے متبادل بیانیہ آج بھی مفقود ہے، طاقت کے مراکز کو سیاسی سرمائے کی قدر کرنا ہو گی جو جماعت سازی، جمہوریت کے دفاع اوربغاوت کا سامنا کرنے کے فیصلے کے لیے قومی اور بین الاقوامی حمایت کے حصول کا وسیلہ بنے گا ۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین