Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

جی 20 سے صدر شی کی غیرحاضری دنیا کے لیے اہم پیغام

Published

on

دنیا کو درپیش متعدد بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کے طاقتور ترین رہنما اس ہفتے کے آخر میں نئی دہلی میں جمع ہوں گے لیکن چین کے صدر شی جن پنگ اس اجتماع سے غیرحاضر ہوں گے، جو 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کبھی جی 20 سربراہ اجلاس سے غیرحاضر نہیں ہوئے۔

جیسا کہ اکثر بیجنگ کے مبہم فیصلہ سازی کا معاملہ ہوتا ہے،

صدر ژی کے ایک بڑے عالمی اجتماع میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور بیجنگ اس طرح کے فیصلوں پر سوچا سمجھا ابہام رکھتا ہے وزیر اعظم لی کیانگ، ملک کے دوسرے بڑے رہنما،صدر شی کی جگہ پر شرکت کریں گے۔

صدر شی نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس پر کئی طرح کے اندازے لگائے جا رہے ہیں،کوئی صدر شی کی صحت کے ممکنہ مسائل کی بات کر رہا ہے تو کوئی چین کے اندرونی مسائل کا ذکر کر رہا ہے جبکہ ایک وجہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بھی بتائی جاتی ہے، جس کے ساتھ بیجنگ کا سرحدی تنازع حالیہ برسوں میں شدت اختیار کر چکا ہے۔

لیکن امریکا، چین بڑی طاقتوں کی دشمنی کی عینک سے دیکھا جائے تو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جی 20 میں صدر شی کا نہ آنا موجودہ عالمی نظام کے ساتھ ان کے مایوسی کا بھی اشارہ دیتا ہے، موجودہ عالمی نظام کو صدر شی بہت زیادہ امریکی اثر و رسوخ کےزیراثر دیکھتے ہیں۔

اسی لیے صدر شی ان کثیر جہتی فورمز کو ترجیح دے رہے ہیں جو چین کے اپنے وژن کے مطابق ہیں کہ دنیا پر کس طرح حکومت کی جانی چاہیے – جیسے کہ حال ہی میں ختم ہونے والی سربراہی برکس کانفرنس اور آنے والا بیلٹ اینڈ روڈ فورم۔

صدر شی جن پنگ کا جی 20 میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے میں ایک حوالے سے ہندوستان کو جان بوجھ کردبانے کا عنصر ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک بیانیہ بھی ہو سکتا ہے کہ طرز حکمرانی کے اس ڈھانچے سے انہیں اختلاف ہے اور جی 20 صدر شی کے خیالات سے ہم آہنگ فورم نہیں۔

موجودہ عالمی نظام میں جی 20 اہم فورم ہے جو دنیا کی 80 فیصد معیشت پر مشتمل ہے اور دنیا کی سرکردہ ترقی یافتہ قوموں کی نمائندگی کرتا ہے لیکن صدر شی کا شرکت نہ کرنا یہ پیغام ہے کہ چین اس فورم کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔

پہلے پہل چین نے اس فورم کو عالمی گورننس کے لیے غیرجانبدار پلیٹ فارم اور ڈپلومیسی کے لیے زبردست مقام تصور کیا،2008 میں اس فورم کا پہلا سربراہ اجلاس ہوا، تب سے چین اس سربراہ اجلاس میں تسلسل کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہے، حتیٰ کہ کووڈ 19 کے دورانیہ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اس اجلاس میں شرکت یقینی بنائی گئی۔2016 میں چین نے اس سربراہ اجلاس کی میزبانی کی تو اس اجلاس کو عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے اظہار کے لیے کامیاب ترین ایونٹ بنا ڈالا۔

تاہم اس کے بعد امریکا اور چین رقابت دشمنی کی حد تک بڑھ گئی اور اب چین جی 20 کو امریکا کی جانب جھکاؤ رکھنے والا فورم تصور کرتا ہے اور صدر شی اسے چین دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔

گروپ کے تقریباً نصف ارکان امریکی اتحادی ہیں، جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے چین کا مقابلہ کرنے میں سخت موقف میں ہمنوا بنا لیا ہے۔ بیجنگ امریکا کے ساتھ اپنے مشکل تعلقات کی وجہ سے دوسرے ارکان کے ساتھ کشیدگی کو بھی دیکھ رہا ہے – جیسے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع۔

بیجنگ نے واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر چار فریقی اتحاد کواڈ میں اس کی شمولیت کو تشویش کی نظر سے دیکھا اور امریکی قیادت میں اس چار فریقی سکیورٹی اتحاد کو’ انڈوپیسفک نیٹو‘ قرار دے کر سختی سے مسترد کیا ہے۔

بیجنگ بھارت کو چین مخالف کیمپ میں دیکھتا ہے اس لیے وہ ایک بڑی بین الاقوامی سربراہی کانفرنس کی اہمیت میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا جو بھارت منعقد کر رہا ہے۔

یوکرین کی جنگ پر تقسیم بھی سربراہی اجلاس پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ بھارت گزشتہ دسمبر میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے اب تک کسی بھی اہم میٹنگ میں مشترکہ بیان جاری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

چین کی طرف سے روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار اور ماسکو کے لیے سفارتی حمایت نے بھی مغرب کے ساتھ کشیدگی  کو بڑھا دیا ہے۔

چین نے کہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ جی 20 کو اقتصادی بات چیت تک محدود رہنا چاہیے۔ جغرافیائی سیاسی فالٹ لائنوں کے گرد سیاست نہیں کی جانی چاہئے، امریکہ اور یورپی اس گروپ کو سیاست میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

جی 20 جسے کبھی چین سفارتکاری کے لیے اہم  سمجھتا تھا، اب اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے،جی 20  چینی سفارت کاری کے لیے کئی سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ "پیچیدہ اور چیلنجنگ” مرحلہ بن گیا ہے، کیونکہ چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے والے اراکین کی تعداد اس فورم پر کم ہوتی چلی گئی ہے۔

صدر شی جن پنگ نے آخری بار گزشتہ سال نومبر میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی، جب چین نے کووڈ سے نکلنے کے بعد عالمی سطح پر اپنی واپسی کا اعلان کیا تھا۔ دو روزہ سربراہی اجلاس کے دوران، انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سمیت 11 عالمی رہنماؤں سے سفارتی ملاقاتیں کیں اور ان میں سے کئی کو چین کے دورے کی دعوت دی۔

اس کے بعد سے، غیر ملکی رہنماؤں کی ایک لمبی قطارصدر شی سے ملاقات کے لیے بیجنگ کے دروازے پر دستک دے چکی ہے، جن میں جرمنی، فرانس، برازیل، انڈونیشیا اور یورپی یونین کے جی 20 لیڈروں کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی شامل ہیں۔

اس دوران، صدر شی نے اس سال صرف دو غیرملکی دورے کیے ہیں اور یہ دونوں عالمی نظام کو نئی شکل دینے کی ان کی کوششوں میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

مارچ میں، صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملنے کے لیے ماسکو کا سفر کیا – ایک "پرانا دوست” جو امریکی طاقت پر اپنے گہرے عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ گزشتہ ماہ، انہوں نے جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں ابھرتے ہوئے ممالک کے برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کی، جہاں بلاک نے چھ نئے اراکین کو شامل کرنے کا اعلان کیا۔

برکس میں توسیع کو صدر شی نے "تاریخی” قرار دیا، یہ بیجنگ کے لیے ایک بڑی فتح ہے، جس نے طویل عرصے اس ڈھیلے ڈھالے معاشی گروپ کو کو مغرب کے لیے ایک جیو پولیٹیکل حریف میں تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔

برکس متبادل طرز حکمرانی کے ڈھانچے کی ایک مثال ہے جو بیجنگ بنانا چاہتا ہے اس میں گلوبل ساؤتھ کے کچھ اہم ترین ممالک شامل ہیں، جس میں چین مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں، صدر شی نے تین عالمی اقدامات کے اعلان کے ساتھ ایک نئے عالمی نظام کے لیے اپنا وژن پیش کیا ہے – گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (ایک نیا سیکیورٹی ڈھانچہ بغیر اتحاد کے)، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو (معاشی ترقی کو فنڈ دینے کے لیے ایک نئی گاڑی) اور عالمی تہذیبی اقدام (ایک نیا ریاستی متعین اقدار کا نظام جو آفاقی اقدار کی حدود سے مشروط نہیں ہے)۔

اگلے مہینے، چینی رہنما اپنے بین الاقوامی انفراسٹرکچر ڈھانچے اور تجارتی اقدام کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی میزبانی کررہے ہیں جو بیجنگ کے نئے عالمی گورننس ڈھانچے کا ایک اہم عنصر ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ، برکس اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن جیسے اقدامات جس میں بیجنگ یا تو بانی ہے یا ایک بڑا کھلاڑی، اب چین میں ان فورمز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ ادارے موجودہ عالمی نظام کے متبادل ڈھانچے کے طور پر موجود ہیں جن میں چین روایتی طور پر شامل رہا ہے۔

یہ باقی دنیا کو بھی پیغام ہے – نہ صرف گلوبل ساؤتھ ممالک بلکہ لبرل جمہوریت کی دنیا کے ممالک کو بھی اب انہیں  چین کی پچ پر کھیلنا ہوگا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین