Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

انتخابات پر چہ میگوئیاں

Published

on

ملک عزیز پاکستان میں آئندہ انتخابات کو لے کر مختلف طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت کچھ سیاسی جماعتیں انتخابات نہیں چاہتیں،  اِس حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اہم ریمارکس دیے ہیں ۔ دوسری طرف بیشتر تجزیہ کار انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔ جہاں تک انتخابات میں تاخیر کے مطالبے کی بات ہے تو اس میں سب سے آگے کوئی اور نہیں، خود مولانا فضل الرحمان ہیں۔ مولانا صاحب انتخابات میں تاخیر کیوں چاہتے ہیں ؟ اِس کی کچھ وجوہات ہیں جوقابل فہم لگتی ہیں ۔سب سے بڑی وجہ اِس وقت سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی ہے، انتخابات پر کئی سوال اُٹھ رہےہیں کہ یہ جانبدار ہوں گے جس کا مقصد کسی ایک جماعت کو فتح دلانا مقصود ہوگا ایسے میں انتخابات ہو بھی گئے تو عدم استحکام بڑھے گا۔

دوسری بڑی وجہ  دہشتگردی کی بڑھتی لہر ہے ۔یہ بات درست ہے کہ 2013ء میں بھی دہشتگردی عروج پر تھی سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر کے پی میں انتخابی مہم چلانے میں کافی مشکل پیش آئی لیکن پھر بھی انتخابات ہوئے ۔اب مولانا صاحب کےقافلے پر حال ہی میں حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچے ۔اِس سے پہلے نگراں وزیر داخلہ نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ انتخابات سے پہلے مولانا صاحب کی جان کو خطرہ ہے اور اُن کا یہ خدشہ درست بھی ثابت ہوا۔ ایسے میں اگر مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ دہشتگرد اُن کےپیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں تویہ مان لینا چاہیے کہ پھر وہ کسی صورت انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔

اِس اعتبار سےدیکھا جائے تو مولانا کا مؤقف اپنے لحاظ سے کافی وزنی ہے ۔کیونکہ جب لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جاتی ہے تو پھر اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو انتخابی مہم چلانے اور انتخابات لڑنے کی یکساں آزادی حاصل ہو۔مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اُن کی نظر میں  الیکشن نہیں ہوسکیں گے، انتخابات کچھ دن مؤخر ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں، الیکشن کمیشن ہماری درخواست پر غور کرے۔مولانا کی یہ بات بھی درست ہے کہ کے پی اور بلوچستان میں امن و امان متاثر ہے، الیکشن کمشنر خود کہتے ہیں کہ دو صوبوں میں صورتحال خراب ہے ۔اس لیے  زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ اِس وقت امن و امان کی فضا میں بگاڑ کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔لیکن مولانا کے ناقدین اِس کو اور ہی نظر سے دیکھ رہےہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ مولانا انتخابات میں جان بوجھ کر تاخیر چاہتے ہیں ۔اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ مولانا فضل الرحمان نےانتخابات کو التوا میں ڈالنے کیلئے خود ہی اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کروانے کی منصوبہ بندی کی ہو۔اِن کی جان کو خطرہ ہے، حکومت پہلے ہی اِس حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کرچکی ہے ۔نگران وزیر اعظم کہہ تو رہے ہیں کہ انتخابات میں یہی کوشش ہوگی کہ بھرپور سیکورٹی دیجائے تاکہ انتخابات خیر و عافیت سے ہوجائیں ۔کیونکہ دہشتگردی کو بہرحال بنیاد بنا کر انتخابات کو التو امیںنہیں ڈالا جاسکتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی اپنے ریمارکس میں الیکشن التوا کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے  کہا ہے کہ لگتا ہےکچھ ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں تاکہ انتخابات نہ ہوں۔اب ان کی مراد ان دشمن عناصر سے بھی ہو سکتی ہےجو ملک کا استحکام نہیں دیکھ سکتے اور شاید ان کا اشارہ ان سیاستدانوں کی طرف ہے جو انتخابات کے التوا کی بات کر رہے ہیں۔بہرحال اب وقت کی ضرورت یہی ہے کہ انتخابی رکاوٹوں کو دور کیا جائے تاکہ جمہوریت کا عمل رکنے نہ پائے  ۔

    اب بات کر لیتے ہیں انتخابات کی ساکھ کے حوالے سے۔ ابھی انتخابات کے انعقاد میں ایک مہینے سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اِس ک  credibility پرسوال اُٹھائے جارہے ہیں۔ملک میں  انسانی  حقوق کی ایک بڑی تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق  نے نئےسال کی آمد پر ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی مجموعی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس پرفوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے چیئرپرسن اسد اقبال کہتے ہیں  کہ سب سے اہم مسئلہ انتخابی عمل میں کھلی ساز باز ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کومنظم طریقے سے دیوار سے لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔

ایچ آر سی پی نے اِس سارے معاملے پر ریاست کا ردعمل انتہائی غیرمناسب اور غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔ایچ آرسی پی کی نظر میں  اس حوالے سے جانا پہچانا طریقہ کاراختیار کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری، اِن پر لگائے گئے  الزامات، پارٹی کارکنان کے پرامن اجتماع کے حق پر پابندیاں، جبری گمشدگیاں، پارٹی کےرہنماؤں پر پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے ہی کنارہ کشی کرنے کے دباؤ کے واضح آثار اور ابھی حال ہی میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی بڑے پیمانے پر نامنظوری ،اس طریقہ کار کا حصّہ ہیں۔کئی دیگر جماعتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح اس سے ملتے جلتے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اِس وقت یہ دکھانے کے لیے بہت کم شواہدہیں کہ اگلے انتخابات آزاد، شفاف اور معتبر ہوں گے۔یعنی انتخابات کی ساکھ پر پہلے ہی سوال اُٹھ رہے ہیں۔اور یہ بات درست ہے کہ اگر ایسے حالات میں انتخابات ہوجائیںتو پھر اِن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پی ٹی آئی پھر سے 2013ء کی سیاست پر اُتر آئے گی ۔پہلے تو اِسکے پاس بہانہ نہیں تھا پھر بھی بہانہ بنا کر کنٹینر کی سیاست کی گئی ۔لیکن  اس بار تحریک انصاف اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہونے کے باوجود مظلومیت کا راگ الاپنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار اور مختلف تنظیمیں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر تبصرے کررہی ہیں ۔ایسے میں انتخابات کے بعد بے یقینی کی کیفیت ختم نہیں بلکہ مزید بڑھ سکتی ہے ۔اگر غیر یقینی کی صورتحال ایسے ہی بڑھتی رہے گی تو ملکی معاشی نظام پورے طریقے سے تباہ وبرباد ہوجائے گا۔عالمی بینک نے توہمارے  معاشی ڈھانچے کو ناکارہ تک کہہ دیا ہے ۔

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے معاشی ماڈل سےمتعلق رائے قائم کرتے ہوئے اس کی بنیادی طور پر دووجوہات بیان کی ہیں۔ پہلی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدودہیں۔ دوسری وجہ پاکستان اپنے ساتھ کے ملکوں سےپیچھے رہ گیا ہے۔ آزاد مارکیٹ مضبوط حکومت برآمدات پرمبنی معیشت کم ٹیکس‘کاروبار دوست پالیسیاں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ورک فورس بین الاقوامی سطح پر معاشی ماڈل کو جانچنے کے معیارات ہیں۔ معاشی ماہرین جب ان پیمانوں کی روشنی میں پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں توانہیں ہمارا معاشی ماڈل ناکارہ لگتا ہےایسے میں انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کس طرح سےکشیدہ ماحول میں آزاد معاشی پالیسیاں بناسکیں گیجبکہ معاشی چیلنجز انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں جنہیں پر امن ماحول اور ایک آزاد حکومت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔اگر سیاسی ہنگامہ برپا رہا تو معیشت کو ٹریک پر چڑھانے کا خواب بالکل بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔پاکستان میں دھاندلی زدہ الیکشن کی مثالیں بے شمار ہیں ۔شایدصرف ایک یا دو الیکشن ہوئے  ہوں گےجن کو  مجموعی طور پرصاف شفاف الیکشن سمجھا جاسکے ۔لیکن  مسئلہ یہ ہےکہ بہت سے  تجزیہ کاروں کی نظر میں آئندہ ہونے والے انتخابات  یقینی طورپر  اِسی طرز کا  الیکشن تصور کیا جائے گا جس میں دھاندلی کاعنصر پایا جائے گا۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ  ایک جماعت کےکاغذات نامزدگی  اس طرح مسترد ہونے سے یہ تاثر گیا ہے کہ اتنےبڑے پیمانے پر اِن کے مسترد ہونے کی مثال پہلے کبھی نہیں ملی ۔ لیکن پاکستان کی انتخابی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو الیکشن متنازع ہوتے رہے ہیں ۔اس  سے پہلے بھی 2018ء کے الیکشن  میں پاکستان مسلم لیگ ن کو آؤٹ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔2018 ء  سے پہلے بھی  ایک سے زیادہ  یہ کوششیں ہو چکی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور پھر اسی طرح ایم کیوایم کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت کوالیکشن سےباہر رکھنے کی ایک بھرپور ریاستی کوشش  پہلی بار نہیں ہورہی ۔ اس سے پہلے متعدد بار یہ کوششیں  ہوچکی ہیں ۔

بہر حال اگرتاریخ کے تناظر سے دیکھا جائے تو  یہ معاملہ کچھ غیر معمولی نہیں ہے۔پہلے ہر جماعت سسٹم کی بینیفشری بنتی ہے پھر جب نظام اس سے بیزار ہوکر اس کو سائیڈ لائن کردیتا ہے تو وہ خود کو مظلوم ثابت کرنے پر تل جاتی ہیں۔جیسا کہ اِس بار تحریک انصاف خود کومظلوم ثابت کرنے کی کوششوں میں ہے۔

اگر انتخابات کو شفاف بناناہے تو آئین اور قانون کی پاسداری تمام سیاسی جماعتوں اورسیاسی رہنماؤں کو کرنا ہوگی جس دن ہمارے رہبروں نے یہ ذہن بنالیا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ محض عوامی ووٹوں پر منتخب ہوکر ایوان میں آئیںگے تو یقین جانیے دھاندلی کا شور ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا اورملک میں مضبوط جمہوریت اور مضبوط معیشت پروان چڑھنے لگ پڑے گی ۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین