Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

ترین نے خود کو امتحان میں ڈال لیا

Published

on

استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ملک کے سیاسی افق پر ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہوا ہے. اس سیاسی جماعت میں نئے نہیں بلکہ وہ پرانے چہرے نمایاں ہیں جو کسی وجہ سے تحریک انصاف کی قیادت سے ناراض ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ گئے یا پھر وہ جنہوں نے حال ہی تحریک انصاف کو خیرباد کہہ کر اس سے راہیں جدا کی ہیں۔

نئی سیاسی جماعت یعنی استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان اور سیکرٹری جنرل عامر محمد کیانی مقرر کئے گئے ہیں لیکن اس کے کرتا دھرتا جہانگیر ترین ہیں جو کسی وقت تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل تھے اور سابق کرکٹ کپتان کے خاصے قریب سمجھے جاتے تھے. بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف میں تھوک کے حساب سے شمولیت کرانے والوں میں ان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔

سیاست ایک بے رحمانہ کھیل ہے اور اس میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں بلکہ عارضی ہوتی ہے. اس لیے پرانے دوست مدمقابل ہو جاتے ہیں. اب بھی اسی طرح کی صورت حال ہے۔

ماضی میں سردار ایاز صادق تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ نون میں شامل ہوئے تو ان کا انتخابات میں اپنی سابق جماعت تحریک انصاف کے سربراہ کیساتھ مقابلہ ہوا اور سابق کپتان کو ہار کر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے جبکہ دوسری مرتبہ پھر ایک دوسرے مدمقابل پہنچے تو سردار ایاز صادق کو دوسری مرتبہ کامیابی ملی اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز ہوئے. اب بھی لگ بھگ 100 ایسے سیاست دان جو تحریک انصاف سے منسلک  تھے اب آنے والے انتجابات اسی جماعت کے امیدوار کے سامنے ہوں گے جس سے وہ اپنے محالف امید وار کو شکست دے چکے ہیں۔

استحکام پاکستان پارٹی جسے آج کی کنگز پارٹی بھی کہا جارہا ہے اوراس طرح کی پارٹی کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے. بیس برس پہلے بھی اسی کا تجربہ کیا گیا اور مسلم لیگ نون سے مسلم لیگ قاف کا جنم ہوا تھا۔

نئی سیاسی جماعت عام انتخابات میں صرف تحریک انصاف کیلئے ہی نہیں بلکہ حکمران جماعتوں کیلئے ایک چیلنج ہوگا بلکہ یہ یوں بھی کہہ جاسکتا ہے استحکام پاکستان پارٹی یعنی آئی پی پی کیلئے خود بھی ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا. ان تمام جماعتوں نے ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنا ہے اور ووٹرز کس جانب مائل ہوتا ہے. اس بارے رائے دینا قبل از وقت ہے۔

 اگرچہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اشارہ دیا گیا ہے لیکن یہ کن شرائط پر ہوگی اور کس کو کیا ڈیل کرنی پڑے گی؟  یہ بات طے ہے کچھ لے اور کچھ دے کے فارمولے پر عمل کرنا پڑے گا اور اس ڈیل میں کچھ باتوں سے دستبرار ہونا پڑے گا اس کے بغیر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے۔

 وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے یہ بات یونہی نہیں کہہ دی کہ اٌن کی جماعت کی آئی پی پی کیساتھ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے. کوئی نہ کوئی ایسا مہرہ ضرور ہوگا جس کی وجہ سے مسلم لیگ نون اور استحکام پاکستان پارٹی کو ایک دوسرے قریب لانے میں مدد مل سکتی ہو۔

یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جہانگیر ترین کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کے اہم رہنما ہیں اور پیپلز پارٹی کے دور میں وہ گورنر پنجاب رہ چکے ہیں. اس سے یہ رشتہ داری بھی پیپلز پارٹی کی نئی جماعت کے ساتھ بات چیت کیلئے معاون ہوسکتی ہے

اب انتخابات میں دو ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے اور اس کیلئے سیاسی جماعتوں کی تیاری بھی ایک اہم سوال ہے کہ ووٹر کو اپنے طرف متوجہ کرنے کیلئے کیا منشور تیار کرتی ہے اور منشور ووٹرز کو ووٹ دینے کیلئے کیسے قائل کرسکتا ہے؟

اس وقت نوجوان ووٹرز کی شرح سب سے زیادہ ہے. یہ ووٹر حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے کیا سوچتا ہے. اس اہم سوال  کا فوری جواب نہیں دیا جاسکتا ہے. یہاں یہ بھی خدشہ ہے موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف کا ہمدرد  اور ووٹر مایوسی کا شکار ہو کر پولنگ کے دن گھر سے ہی نہ نکلے، اس کی عدم دلچسپی کا فائدہ کس سیاسی جماعت کو ہوتا ہے؟ یہ بات بھی توجہ طلب  ہے۔

ویسے تو استحکام پاکستان پارٹی میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوتے ہیں یعنی الیکٹیبلزہیں اورکسی جماعت میں ان کی شمولیت علامتی ہوتی ہے۔

ابھی یہ گتھی بھی سلجھنانا باقی ہے کہ کیا استحکام پاکستان پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے والے الیکٹیبلز کس قدر کار آمد ثابت ہوتے ہیں اور خاص طور تحریک انصاف ووٹ کس طرح حاصل کرتے ہیں؟. یہ سوال گزشتہ برس جولائی میں ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد  اپنی اہمیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اسے نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے اور کیا ایک مقبول سیاسی جماعت کے ووٹ بینک کے سامنے الیکٹیٹبلز کامیاب ہوسکیں گے؟

یہ بات طے ہے کہ حکمران جماعتوں نے اپنی گزشتہ ایک برس کی کارکردگی کا جواب عوامی جلسوں میں دینا ہے اوراستحکام پاکستان پارٹی نے اس بات پر مطمئن کرنا ہے کہ وہ  دوسروں سے کس طرح مختلف اوربہتر ہیں؟ انتخابات میں کسی بھی جماعت کی کامیابی میں تحریک انصاف کے ووٹرز کا اہم کردار ہوگا چاہے وہ ووٹ ڈالے یا اس عمل دوری اختیار کریں۔

یہ سوال بھی کسی پہیلی  سے کم نہیں اور اپنی جگہ غور طلب ہے کہ پاکستان استحکام پارٹی کسی ایک جماعت سے ایڈجسٹمنٹ کرے گی یا پھر ہر صوبے میں کسی ایک الگ سیاسی جماعت کیساتھ چلے گی.  اگر مختلف سیاسی جماعتوں کی ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے  توانتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی آج کی قوی اسمبلی سے مختلف نہیں ہوگی۔

آئندہ انتخابات میں کسی بھی جماعت کو صرف کامیابی نہیں بلکہ اکثریث کیساتھ واضح جیت کی ضرورت ہوگی تاکہ حکومت سازی کیلئے کسی دوسری سیاسی جماعت پر انحصار نہ کرنا پڑے اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہ اندیشہ درست ثابت ہو سکتا ہے کہ معلق اسمبلیاں وجود میں آئیں گی اور مخلوط حکومت  کے ذریعے بننے والی حکومت مضبوط ثابت نہیں ہوگی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین