Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

ریٹرننگ افسروں کے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، الیکشن کمیشن کو آج ہی الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم

Published

on

سپریم کورٹ نے ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے حدود سے تجاوز کیا، کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لاہورہائیکورٹ مزید کوئی کارروائی نہ کرے، ہائی کورٹ نے یہ بھی نا دیکھا کہ افسران نے ملک بھرمیں خدمات سرانجام دینی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔

اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن 8 فروری کو کرانے تھے، اتنی کیا جلدی ہو گئی؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، الیکشن کمیشن کی کوشش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔

جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں؟ آپ نے تو الیکشن ہر حال میں کرانے ہیں۔

سجیل سواتی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سےدائر کی گئی ہے؟۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ظاہر ہے عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں، اس لیے یہ درخواست بھی پارٹی کی سطح پر ہی دی گئی ہے۔

سجیل سواتی نے کہا کہ عمیر نیازی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز افسران کی تعیناتی صاف و شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان ہو گا اس لیے آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیا جائے، لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن 3 رکنی بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ اور مصروفیت تھی، جسٹس منصور علی شاہ کو سینئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے، آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میری خواہش تھی کہ موسٹ سینٸرججز بینچ میں شامل ہو، میں نے موسٹ سنیٸر ججز کے نام بینچ کے لیے تجویز کیے تھے، جسٹس اعجاز الاحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے، ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو پھر تکلیف دی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ درخواست گزارکیا چاہتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں، درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسروں کی آراو تعیناتی ہمیشہ کے لیے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں؟۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےعدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائیکورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ نگراں حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تو تحریک انصاف درخواست گزار تھی، کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست گزار کا مؤقف ہے یہی ڈپٹی کمشنرز نظربندی کے احکامات جاری کرتے ہیں، درخواست گزار کا مؤقف ہے انہیں انتظامی افسران پر اعتماد نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل وہ کہیں گے عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ 7 دن کی ٹریننگ تھی ایک دن کی ہوئی پھر نوٹیفیکیشن معطل کر دیا گیا، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ ہائیکورٹ نے ٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل مںصور عثمان اعوان نے کہا کہ معاونت کے لیے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کے خلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن حد ہوگئی ہے، ابھی تک الیکشن شیڈیول کیوں نہیں دیا گیا؟ الیکشن شیڈیول اور ٹریننگ الگ چیزیں ہیں، شیڈول پیش کریں تیار تو کیا ہی ہوگا، کیا الیکشن شیڈول آج جاری کریں گے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا کہ ٹریننگ کے بعد شیڈیول جاری کریں گے، سیکرٹری الیکشن کمیشن شیڈول کب جاری کریں گے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون کہاں کہتا ہے ٹریننگ سے الیکشن شیڈول مشروط ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ کے فوری بعد الیکشن شیڈول جاری ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 8 فروری میں کتنے دن رہتے ہیں؟ جس پر وکیل الیکشن کمشن سجیل سواتی نے جواب دیا کہ آج سے 55 دن رہتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کے لیے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈی آر اوز کی ضرورت کب ہے؟

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ٹریننگ بلاوجہ کیوں روکی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟ الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، ہائیکورٹ تو خود ہی نوٹیفکیشن معطل کر چکی تھی ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتیں نوٹیفکیشن معطل کریں تو متعلقہ ادارہ معطلی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری کرتا، جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ افسران کو الیکشن کمیشن نے حکم دینا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کا آراوز اور ڈی آر اوز سے متعلق فیصلہ معطل کردیا اور درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے انڈرٹیکنگ دی کہ آج شیڈول جاری کردیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا اور کہا کہ عمیرنیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟

عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل باضابطہ سماعت کے لیے منظور کرلی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔

الیکشن کمشین نے ہائیکورٹ آرڈر کے بعد جاری اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کی یقین دہانی کرا دی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں ہمیں اپنا کرنے دیں،اجازت دیں تومیں چھٹی پرچلا جائوں۔

بعدازاں عدالت ععظمیٰ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حکم نامہ لکھوادیا

الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حکم نامہ لکھوادیا۔

حکم نامے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے 13 دسمبر کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی گئی، سپریم کورٹ میں انتخابات کیس کرنے والوں کو ہائیکورٹ میں فریق بنایا گیا، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 غیرآئینی قرار دینے کی استدعا تھی۔

عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر 8 فروری کی تاریخ مقرر کی، تمام فریقین 8 فروری کی تاریخ پر متفق تھے، وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، وکیل کے مطابق ہائی کورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈول جاری کرنا ممکن نہیں۔

عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، وکیل کے مطابق ہائیکورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈول جاری کرنا ممکن نہیں، سجیل سواتی کے مطابق ہائی کورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے، وکیل کے مطابق کیس لارجر بینچ کو بھیجتے ہوئے نوٹیفیکیشن معطل کیا گیا۔

چیف جسٹس کے فیصلہ لکھوانے کے دوران پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی روسٹرم پر آگئیں، جس پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھوا رہے ہیں مداخلت نہ کریں، آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ وکیل نہیں ان کا بولنا نہیں بنتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔

حکم نامے میں لکھا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے 1011 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا، ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں، ہائیکورٹ نے اپنے علاقائی حدود سے بڑھ کر حکم جاری کیا، عدالت نے استفسار کیا کسی ریٹرننگ افسر کے خلاف درخواست آئی تھی؟ الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی۔

حکم نامے میں مزید لکھا گیا کہ عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ احکامات کا علم ہونا چاہیئے تھا، بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین