Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

77 مخصوص نشستوں پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے، سپریم کورٹ

Published

on

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے فیصلہ سنایا۔

فل کورٹ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ فیصلہ 8 کی اکثریت کا ہے، جو جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے، جسٹس منصور علی شاہ سے کہوں گا کہ وہ فیصلہ سنائیں۔

جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہکا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حق دار ہے، تحریکِ انصاف اس فیصلے کے 15 روز میں اپنے مخصوص افراد کی نشستوں کے نام کی فہرست دے۔

سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹِی آئی کو دے دی جائیں۔

سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ دیگر 41 امیدوار بھی 14 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار تھے، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے، الیکشن کمیشن نے 80 اُمیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حق دار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹِی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا، فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ارکان کو نکال کر فیصلہ دیا، اس بنیاد پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن نے غلط طور پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کیا، پی ٹی آئی نے آزاد قرار دیے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج ہی نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی سے تعلق ڈیکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا۔

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری کو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، 27 فروری کو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم فریق بنے۔

28 فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر 1-4 کے تناسب سے فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کے حصے کی نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دیں، نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے پرالیکشن کمیشن کے ایک ممبرنے اختلاف کیا تھا۔

6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیا، 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے لیے دائردرخواستیں خارج کیں۔

پشاورہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔

2 اپریل کو مخصوص نشتوں کے لیے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

6 مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کی حد تک پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا جبکہ 3 رکنی بینچ نے آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔

31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے لیے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا گیا، فل کورٹ نے 3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے 9 سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا جبکہ سماعتیں یو ٹیوب اسٹریمنگ کے ذریعے براہِ راست نشر کی گئیں۔

کس جماعت کو کتنی اضافی مخصوص نشستیں ملیں؟

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 77 متنازع مخصوص نشستوں کو معطل کر دیا تھا، کُل 77 متنازع نشستوں میں سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں ہیں۔

الیکشن کمیشن پاکستان نے 13مئی کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔

قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختون خوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل ہیں جن میں سے جے یو آئی ف کو 10، مسلم لیگ ن کو 7، پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل ق اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔

سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں جہاں پیپلز پارٹی کو 2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین