کالم
انتخابی مہم ایسی تو نہیں ہوتی تھی!
عام انتخابات اب دنوں کی بات ہے لیکن اب تک وہ روایتی ماحول نہیں بن سکا اور نہ ہی وہ گہما گہمی پیدا ہوئی جو انتخابات میں نظر آتی ہے۔ کہیں بھی امیدوار اپنی انتخابی مہم ایسے نہیں نہیں چلا رہے جیسا ماضی کے انتخابات میں چلائی جاتی تھی۔ اگر امیدواروں کے پوسٹر نہ لگے ہوں تو شاید ہی کسی کو یہ گمان بھی ہو کہ 8 فروری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔
انتخابی مہم میں نہ تو وہ روایتی جوش ہے اور نہ ہی امیدواروں کی تقاریر ایسی ہیں جو ماحول کو گرما دیں۔ عام الفاظ میں یہ انتخابی مہم پھیکی ہے۔ 1970 سے 2018 کے انتخابات میں کبھی اتنا پھیکا پن نہیں رہا۔ حتی کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی انتخابی مہم کے تمام لوازمات پورے تھے۔ 85 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔
ملکی انتخابات میں ایک عام روش رہی ہے کہ سبکدوش ہونے والی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بظاہرامکانات نہیں ہوتے۔ ماسوائے ذولفقار علی بھٹو کے تواتر کے ساتھ کوئی اقتدار میں نہیں آیا اور 1977 جب پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو دوبارہ اقتدار میں آنے تو پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگایا اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
1977 کے بعد جس جماعت سیاسی کی حکومت ختم ہوئی وہ فوری اقتدار میں نہیں آئی لیکن اس حقیقت کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے اپنی انتخابی مہم چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1990 اور 1997 کے انتخابات میں یہ تاثر قائم تھا کہ پیپلز پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے امکانات محدود ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے پھر پور مہم چلائی اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بنی لیکن 2024 میں صورت حال یکسر تبدیل ہے۔
اس کی بنیادی وجہ لیول پلینگ فیلڈ نہ ہونا بھی ہے اور امید وار وہ روایتی تقاریر نہیں کر رہے جس سے ووٹرز مائل ہوتے تھے۔ اکا دکا جلسے اور تقاریر کے سوا اب تک کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ یہ تاثر ابھی بھی قائم ہے کہ کسی وقت انتخابات منسوخ ہو سکتے ہیں۔ زیر عتاب جماعت تحریک انصاف کو اُس انتخابی مہم میں رکاوٹوں کا سامنا ہے لیکن انہوں نے ووٹرز سے رجوع کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا پیلٹ فارم چنا ہے۔ تحریک انصاف ڈیجیٹل فورمز پر بہترین انداز میں اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے اور اب امیدوار جلسے کے بجائے ڈیجیٹل فورمز کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلا رہے جو ایک نیا انداز ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں مخلوط حکومت میں تھے لیکن اب ایک دوسرے کیخلاف تقاریر کر رہے ہیں۔ سابق سپیکر سردار ایاز صادق کے بقول ایسی تقاریر انتخابات میں ہوتی ہیں۔ ویسے بھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے پر تنقید اتنی تلخ نہیں ہے جتنی کسی وقت ہوا کرتی تھی، یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو ماضی کی طرح پھر ملکر حکومت قائم کریں. اس لیے تقاریر میں اُتنی ہی بات کی جا رہی ہے جس کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں رفاقت اور رقابت کا کوئی وقت طے نہیں ہے، شائد اس لیے دروازے بند نہیں کیے جاتے۔
اس وقت تحریک انصاف کے امیدواروں کے سوا ہر جماعت اور امیدوار کا پوسٹر نظر آ رہا ہے۔ اگر کہیں تحریک انصاف کے پوسٹر نظر آتے ہیں تو وہ اگلے روزاُس جگہ نہیں ہوتے۔ سابق گورنر پنجاب میاں اظہر جو سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے والد ہیں انہیں بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ حماد اظہر نے اپنے والد کی گرفتاری کی سوشل میڈیا ایکس پر تصدیق کی ہے۔ میاں اظہر بیس برس کے بعد انتخابات میں اترے ہیں اور مسلم لیگ نون کے حافظ نعمان کے مقابلے میں امیدوار ہیں۔
ملکی سیاست میں یہ ایک روایت رہی ہے کہ ہر انتخابات کیلئے نئے نعرے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ نعرے جماعت کی سوچ اور ایک طرح سے منشور کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے 1970 کے انتخابات میں” روٹی کپڑا اور مکان” 2013 میں "نیا پاکستان” اور 2018 میں "ووٹ کو عزت دو” کے نعرے متعارف کرائے گئے لیکن اس مرتبہ نئے نعروں کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ نئے نعروں کے بغیر اس مرتبہ انتخابات پھیکے پھیکے لگ رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اجتماعی اور انفرادی طور پر کچھ نعرہ اور گانے بنائے ہیں جو صرف سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل پیلٹ فارم تک ہی محدود ہیں۔
ان انتخابات میں نئے نعرے تو ایک طرف پرانے نعرے بھی اپنا وجود اور اہمیت کھو چکے ہیں۔ "ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ جو ایک مقبول اور جاندار نعرہ تھا لیکن اب وہ ماضی کا قصہ ہے جس جماعت نے یہ نعرہ متعارف کرایا تھا وہی اب اسے زبان پر نہیں لا رہی۔
پاکستان میں ماسوائے 1970 کے انتخاب کے سوا تمام انتخابات کے نتائج متنازعہ رہے اور سیاسی جماعتوں نے نتائج کوجھرلو اور دیگر نام دیئے۔ حتی کہ جنرل پرویز مشرف کی کنگ پارٹی مسلم لیگ قاف کے سربراہ اورسابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے اپنی خودنوشت میں یہ کہا کہ اُن کی جماعت کو ہرانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ نواز شریف نے 1993 کے انتخابات کے بعد تحریک نجات شروع کی۔ تمام جماعتیں کسی نہ کسی وقت یہ شکوہ کر چکی ہیں کہ انہیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دیا گیا اور کسی جماعت کو قبول کرنے کا الزام بھی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔
اب پھر لیول پلینگ فیلڈ نہ دینے کی بات ہو رہی ہے اور ایک جماعت زیر عتاب ہے اس تمام عمل نے انتخابات کی ساکھ کو ابھی سے بُری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اس طرح کا عمل جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ اس سے جمہوریت کمزور ہوگی اور اس کی ذمہ دار دیگر عوامل کے علاوہ خود سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں کو جمہوری اقدار، روایات اور اخلاقیات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ لیول پلینگ فیلڈ اور قابل قبول نتائج کے بغیر نہ تو جمہوریت کو فروغ ملے گا اور نہ سیاسی استحکام آسکتا ہے۔
8 فروری کے انتخابات کے بعد اس کے نتائج بھی پر ماضی کی طرح ایک سوالیہ نشان ہوگا۔ انتخابات کے نتائج کو کون قبول کرے گا اور کون نہیں ؟ قبولیت کس کے حصہ میں آئے گی اور سیاسی استحکام کیسے ملے گا؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی