Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

قذافی سٹیڈیم کے سامنے درد سر بننے والا بارشی پانی اور ایک نگران وزیر کے ٹویٹر پیغام کی دلچسپ کہانی

Published

on

چند ہفتے پہلے کی بات ہے، پنجاب کی نگران کابینہ کے ایک رکن مون سون کی طوفانی بارش کے بعد قذافی سٹیڈیم کے باہر نکاسی آب کی کوششوں کا جائزہ لینے پہنچے اور واسا حکام سے اس علاقے میں نکاسی آب کے مستقل مسئلے کی وجہ دریافت کی۔

واسا حکام نے انہیں آگاہ کیا کہ دراصل یہ سٹیڈیم ان کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا اور اس کا نکاسی آب کا کوئی نظام بھی وجود نہیں رکھتا کیونکہ اس منصوبے کے آغاز پر اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی ہوئی نہ بندوبست کیا گیا۔

نگران کابینہ کے رکن یہ جان کر حیران رہ گئے اور پوچھا کہ پنجاب کی حکومتیں اور واسا کیوں ہر مون سون میں تنقید برداشت کرتی رہی ہیں؟ واسا حکام نے جواب دیا کہ اس تنقید کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ کوئی بھی اصل مسئلے کی جانب توجہ نہیں دیتا۔

صوبائی وزیر جذباتی ہوگئے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نکاسی آب کی کوششوں کے ساتھ اصل مسئلہ کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن ابھی وزیر موصوف اس علاقے میں ہی موجود تھے کہ ان کے فون کی بیل بجی، جی سر! اچھا جی! کہا اور پھر واسا حکام حیران رہ گئے کہ وزیر بہادر کا ٹویٹ ہی ڈیلیٹ کردیا گیا۔

یہ دلچسپ صورتحال واسا حکام نے اس علاقے کے نکاسی آب کے مسئلہ پر اردو کرانیکل کے رابطہ کرنے پر بتائی۔

اردو کرانیکل نے مون سون کے دوران شہر کے مرکز میں مستقل درد سر بننے والے اس مسئلہ کی وجوہات اور ان کا حل جاننے کے لیے واسا حکام سے بات چیت کی۔

کرکٹ اور ہاکی سمیت مختلف کھیلوں کے لیے قائم نشتر سپورٹس کمپلیکس کو عام شہری قذافی سٹیڈیم کے نام جانتا ہے،

 نشتر سپورٹس کمپلیکس 110 ایکڑ (880کنال) پر قائم ہے، جہاں سے وفاقی حکومت اور سپورٹس بورڈ اربوں روپے سالانہ کما رہے ہیں، یہاں بنائی گئی مارکیٹس کا کرایہ ماہانہ کروڑوں روپے بنتا ہے لیکن واسا حکام نے انکشاف کیا کہ یہاں  کسی بھی قسم کا سیورج اور واٹر سپلائی سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں۔

ہرسال بارشی پانی جمع ہونے سے گردونواح میں رہائش پذیر لوگ اور کاروباری حضرات شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

نشتر سپورٹس کمپلیکس میں قذافی سٹیڈیم ، خواتین کے لئے وومن کرکٹ گراؤنڈ، نیشنل ہاکی سٹیڈیم ،فٹ بال سٹیڈیم ،سائیکلنگ ٹریک ، جمنازیم ،اتھلیٹکس ، سپورٹس کمپلیکس ، پی سی بی کے دفاتر ، پاکستان سپورٹس بورڈ کے دفاتر موجود ہیں۔

یہاں کرکٹ میچوں اور بڑے سپورٹس فیسٹیولز کے دوران لاکھوں تماشائی اکھٹے ہوتے ہیں۔سپورٹس بورڈ کروڑوں روپےاکھٹا کرتے ہیں، کھیلوں کے بین الاقوامی ادارے سالانہ فنڈز دیتے ہیں، مگر یہاں تماشائیوں کے لیے پینے کے صاف پانی تک کا انتظام نہیں ۔

اربوں روپوں کی لاگت سے تیار کئے جانے والےان سٹیڈیمز کی تیاری کے حوالے سے یہ بات غور طلب ضرور ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کیوں کوئی انتظام نہیں کیا؟ ان سٹیڈیمز کے لیے نقشے بنانے اور پلاننگ کرنے والوں کو پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے نظام کا خیال چھو کر بھی نہ گذرا؟

2004 کے مون سون سیزن میں، جب یہاں صرف دو ہاکی اور کرکٹ اسٹیڈیم اور سائیکلنگ ٹریک تھا، شدید بارش کے بعد کھیل کے یہ تمام میدان ایک ماہ پانی میں ہی ڈوبے رہے، نکاسی آب کے لیے لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور واسا سے مدد لینا پڑی تھی۔

اس آفت کے بعد سیوریج منصوبے کا خیال سب کو سوجھا، منصوبہ شروع کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن پھر مالی معاملات پر تنازعات سے کھٹائی کا شکار ہوگیا۔

2020 میں پی ایس ایل میچوں سے قبل شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، سپورٹس بورڈ نے پنجاب حکومت سے مدد طلب کی، پنجاب حکومت نے ضلعی حکومت کو تعاون کی ہدایت کی اور واسا کو حرکت میں لایا گیا۔

واسا نے دن رات محنت کر کے نشتر سپورٹس کمپلیکس کو کلئیر کر دیا اور پی ایس ایل کا انعقاد عمل میں آیا تو اسی وقت فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ایک جدید اور اعلی معیار کا سیورج اور واٹر سپلائی سسٹم بنوایا جائے جس کے لئے واسا اور ایل ڈی اے کو ہدایات جاری کی گئیں، اس منصوبے کی درخواست خود سپورٹس بورڈ نے پی سی بی (پاکستان کرکٹ بورڈ)کے ایما پر کی تھی۔

واسا نے واٹر سپلائی اور سیوریج کے ڈیزائن تیار کر کے پاکستان سپورٹس بورڈ کے حوالے کیا، اس کی تعمیری لاگت کا تخمینہ 6 ارب روپے تھا، پی سی بی نے ڈیزائن کو بہت سراہا لیکن لاگت کا تخمینہ دیکھتے ہی مسترد کردیا۔

حالیہ بارشوں کے بعد نشتر سپورٹس کمپلیکس ایک بار پھر دریائے راوی کا منظر پیش کر رہا تھا، اور نگران کابینہ کے رکن کو واسا نے اسی بارش کے بعد بریفنگ دی، جس کے نتیجے میں انہیں ٹویٹ کر کے ڈیلیٹ کرنا پڑا۔

پاکستان سپورٹس بورڈ نے ایک بار پھرپنجاب کی نگران حکومت کو سستا منصوبہ بناکر دینے کی درخواست کی اور نگران حکومت نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی حامی بھری، اس منصوبے پر وفاق اور پنجاب کے درمیان طے پایا کہ لاگت کا 60 فیصد وفاق اور 40 فیصد پنجاب حکومت ادا کرے گی۔

واسا اور ایل دی اے سے ایک بار پھر کہا گیا کہ ایک سستا لیکن قابل عمل منصوبہ تیار کیا جائے، اس بار نیا ڈیزائن بنا۔

نئے منصوبے میں 3/3 کے دو ڈرینز اور سیورج لائنز، ایک بجانب فیروز پور روڈ اور دوسری بجانب گلبرگ لبرٹی مارکیٹ پلان کی گئی۔

منصوبے میں صاف پانی جمع کرنے کے لئے 120/150 کے دو زمین دوز واٹر ٹینک اور صاف پانی کا ایک ٹیوب ویل بھی شامل کیا گیا۔

اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 1 ارب 30 کروڑ روپے لگایا گیا، وفاق نے 60 فیصد شیئر کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب پنجاب حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ منصوبہ ازخود مکمل کرے کیونکہ پی سی بی وفاق کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں۔

اس حوالے سے سمری پی اینڈ ڈی کے پاس آئی لیکن مسترد کر کے وفاقی حکومت کو واپس بھجودی گئی ہے، پی اینڈ ڈی نے لکھا کہ وفاق کے زیر انتظام چلنے والے اس خود کفیل ادارے کو تکنیکی مدد اور سہولیات فراہم کرنے کے لئے ان کے پاس فنڈ نہیں ہیں لہذا اس کا بندوبست کہیں اور سے کیا جائے ۔

ذرائع کے مطابق حالیہ بارشوں میں واسا کی جانب سے اس علاقہ سے پانی نکالنے کے لئے مشینری کے استعمال پر قریبا ڈیڑھ کروڑ روپے لاگت آئی مگر پاکستان سپورٹس بورڈ نے  حسب روایت واسا کو کوئی ادائیگی نہیں کی۔

واسا حکام کا کہنا ہے کہ ہع مون سون سیزن میں کروڑوں روپے نکاسی آب پر خرچ کرنا پڑتے ہیں اور شہر کے لیے فنڈز ان اداروں پر خرچ کرنا پڑتے ہیں جو واسا کی ذمہ داری ہی نہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین