ٹاپ سٹوریز
بجلی چوری کا نقصان بل ادا کرنے والے صارفین سے پورا کرنے کی پالیسی نے عوام کی چیخیں نکلوادیں
’ صاحب! کچھ دن اور ہیں، اب کاروبار بند کردوں گا‘ دفتر کے قریب ایک معمولی فوڈ پوائنٹ کے مالک نے کھانا میرے سامنے رکھتےہوئے کہا۔
میں چونک گیا کیونکہ وہ کئی برسوں سے یہی کاروبار کر رہا ہے، اچانک بند کیوں کرنے لگا، میں نے پوچھا ’ کیوں کیا ہوا‘ ۔
فوڈ پوائنٹ کے مالک سلیم نے بتایا کہ یہ معمولی سا فوڈ پوائنٹ آپ کے سامنے ہے،صرف تین پنکھے چلتے ہیں، 5 بلب ہیں اور ایک ڈیپ فریزر لیکن بجلی کا بل جو پہلے 10 ہزار آتا تھا اس مہینے 44650 آیا ہے،لیسکو دفتر گیا تھا کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو، انہوں نے کہا یہی بل ہے، بھرنا پڑے گا۔ بجلی مہنگی ہو گئی ہے۔
میں نے سلیم سے پوچھا کاروبار بند کرکے کیا کروگے؟ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن اس کا کہنا تھا کہ کاروبار کر کے بھی کیا کروں گا؟ پہلے ہی لوگ کھانے سے تنگ ہیں، قیمتیں بڑھائیں تو کوئی یہاں کیوں آئے گا؟۔
یہ صرف سلیم کی کہانی نہیں، خوانچہ فروش محمد اکرم جو پھل بیچتا ہے اس کا بھی یہی رونا ہے ، 70 سال کے رکشہ ڈرائیور نذیر، جس کے گھر واشنگ مشین بھی نہیں، کوئی اور الیکٹرانکس کیا ہونی ہیں، اس نے بھی بتایا کہ اس کا بجلی کا بل 21876 روپے آیا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
یوں یہ کہانی گھر گھر کی ہے لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو لیسکو کے لائن مین بابر علی سے بات چیت کے ساتھ سامنے آیا۔
بابر نے بتایا کہ لاہور کے بارڈر ایریا میں دو سے تین بار بل وصولی کے لیے جانا پڑا لیکن پہلی بار گیا تو اس علاقے کی سمجھ نہیں تھی، دو جونیئرز ساتھ تھے شہباز اور ناصر ٹیپو، انہوں نے مجھے روکا اور کہا کہ آپ مت جائیں، ہم جاتے ہیں۔
بابر کا کہنا ہے کہ کچھ وقت گزرا تھا کہ ناصر ٹیپو بھاگتا آیا اور مجھے بھی بھاگنے کو کہا، مجھے کچھ سمجھ تونہ آئی لیکن بھاگ کھڑا ہوا اور اس سے پوچھا کچھ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے؟
ٹیپو نے بتایا کہ گاؤں والوں نے شہباز کو پکڑ لیا ہے اور میں بمشکل بھاگ کر آیا ہوں۔ بابر کے مطابق وہ باٹا پور تھانے پہنچے اور رپورٹ درج کرائی، پولیس نفری گئی اور شہباز کو انتہائی مضروب حالت میں لے کر آئی۔ باٹا پور پولیس نے کہا کہ آئندہ ان کی طرف نہ جانا اور جانا ضروری ہو تو فوجیوں کے ساتھ جانا۔
ان دو منظر ناموں سے ایک بات سمجھ آئی کہ جو بل نہ دے اسے پوچھتا کوئی نہیں اور جو بل ادا کرے اس پر نادہندگان کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ اس معاملے کی تہہ میں جانے کے لیے لیسکو کے اعداد و شمار جاننے کی کوشش کی۔
ریکوری 100 فیصد مگر کیسے؟
اس ماہ لیسکو نے 10 ارب کے بل جاری کئے اور ریکوری 7.8 ارب ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لیسکو کے پی آر او مسعود احمد کھرل کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ بلوں کی مد میں ریکوری 101 فیصد رہی۔
ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ رہ جانے والے بلوں کی رقم بھی وصول کی گئی جس سے ریکوری میں اضافہ ہوا۔ مسعود احمد کھرل کے مطابق اس ماہ لیسکو کی جانب سے 10 ارب سے زائد کے بل صارفین کو بھجوائے گئے تھے جن میں 7 ارب 80 کروڑ کی وصولی کی جاچکی ہے تاہم مزید وصولیاں کی جارہی ہیں اور امید ہے کہ اس کو مکمل کر لیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ وفاقی حکومت اضافی بلوں پر کوئی فیصلہ کرنے جارہی ہے، وزیراعظم نے اجلاس طلب کیا ہے اورعوام کو ریلیف دینے کی بات کی جا رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومتی فیصلوں پر عملدآمد کے پابند ہیں، مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ احکامات ہمارے پاس کب آتے ہیں اس ماہ یا اگلے ماہ ،جیسے ہی آرڈر موسول ہوئے اس پر عملدرآمد کر دیا جائے گا۔
لیسکو کی رییکوری 101 فیصد ہے اور کئی علاقوں میں لوگ بل ادا کرنے کی بجائے عملے سے مار پیٹ بھی کرتے ہیں تو یہ سمجھ آنے والی بات ہے کہ ریکوری 100 فیصد دکھانے کے لیے قانون کی پاسداری کرنے والے صارفین پر بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے۔
پیپکو کے رٹائرڈ انجنئیر محمد سیف کے مطابق بجلی کے ترسیلی نظام میں جو نقائص ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری کمپنیوں پر ہی عائد ہوتی ہے، اس میں پیپکو کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بجلی چوری کے مسائل کے حل کے لئے کمپنیوں کوہی کام کرنا ہو گا کیونکہ یہ اب ایک صوبائی مسئلہ ہے۔
محمد سیف نے کہا کہ لاہور کے بارڈر ایریاز سمیت کئی علاقوں میں بجلی کم و پیش مفت استعمال کی جارہی ہے جو کہ کل سپلائی کا 31 فیصد ہے یعنی یہ 31 فیصد اضافی بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اسی طرح اب شہروں کے اندر یعنی لاہور کے اندر بھی بجلی چور ہو رہی ہے جس میں کمی نہیں آئی اور اس میں اضافہ ہی ریکارڈ کیا گیا ہے اس کا بوجھ بھی لوگوں پر منتقل کیا جارہا ہے جس سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بجلی چوری اور لائن لاسز کس کے کھاتے ہیں جاتے ہیں؟ اس حوالے سے وزارت بجلی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بجلی کی قیمتوں کا تعین پہلے نیپرا کیا کرتی تھی اب ایسا نہیں ہے، آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ سپلائی کی جانے والی بجلی کی کل قیمت کا تخمینہ لیتے ہیں اور پھر اس قیمت کو بلوں کے ادائیگی والے علاقہ یا تعداد پر تقیسم کیا جاتا ہے اور اوسط نکال لی جاتی ہے اوربجلی چوری کا بوجھ بل ادا کرنے والوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی
Rizwan
اگست 27, 2023 at 10:24 شام
اللہ ُُباکستان کی ُُحفاظت فرماے۔۔ آمین