Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت سے روک دیا

Published

on

The Supreme Court stopped the Islamabad High Court from hearing the audio leaks case

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بشری بی بی اور ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیکس کا کیس سننے سے روک دیا ہے۔

جسٹس امین الدین اور نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست پر کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں جسٹس بابر ستار کیجانب سے دیے گئے دو فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کارروائی روک دی۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے بشری بی بی اور ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کونوٹس جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 29 مئی اور 25 جون کے احکامات بھی معطل کردیے۔ ‏جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے آڈیو لیکس کیس میں قرار دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے حکم نامے میں لکھوایا کہ ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں آرٹیکل 199 کی حد کو عبور کیا ہے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ بھی ہو سکتا ہے جن سے بات کی جارہی ہو آڈیو انہوں نے خود لیک کی ہو، کیا اس پہلو کو دیکھا گیا ہے؟آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ آڈیو لیکس سے متعلق کیس کی کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر آڈیو لیکس کیس کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کو بھی نوٹس جاری کردیے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ نے یہ تعین کیا ہے کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا، تفتیش جاری ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں سچ تک کوئی نہیں پہنچنانا چاہتا، سچ جاننے کے لیے انکوائری کمیشن بنا اسے سپریم کورٹ سے سٹے دے دیا، سپریم کورٹ میں آج تک دوبارہ آڈیو لیکس کیس مقرر ہی نہیں ہوا، پارلیمان نے سچ جاننے کی کوشش کی تو اسے بھی روک دیا گیا، نہ پارلیمان کو کام کرنے دیا جائے گا نہ عدالت کو تو سچ کیسے سامنے آئے گا؟۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جن سے بات کی جا رہی ہو آڈیو انہوں نے لیک کی ہو، کیا اس پہلو کو دیکھا گیا یے؟ آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔

یاد رہے کہ بشری بی بی اور نجم ثاقب کی آڈیولیکس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا 25 جون کا حکم سپریم کورٹ چیلنج کیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ اداروں کے سربراہان کی طلبی اور ان سے رپورٹس منگوانا فیکٹ فائنڈنگ کے مترادف ہے ، نجم ثاقب کی درخواست پارلیمانی کمیٹی کی طلبی کے خلاف تھی جو معاملہ ختم ہو چکا ہے۔

وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے حقائق کے منافی فیصلہ دیا، وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا، سپریم کورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ کا 25 جون کا آرڈر کالعدم قرار دے ۔

یاد رہے کہ 5 جولائی کو وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا 25 جون کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پی ٹی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ اداروں کے سربراہان کی طلبی اور ان سے رپورٹس منگوانا فیکٹ فائنڈنگ کے مترادف ہے، نجم ثاقب کی درخواست پارلیمانی کمیٹی کی طلبی کے خلاف تھی جو معاملہ ختم ہوچکا، اسلام آباد ہائی کورٹ غیر مؤثر درخواست کے نکات سے ہٹ کر کارروائی کر رہی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے حقائق کے منافی فیصلہ دیا ہے، ہائی کورٹ نے وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

حکومت نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 25 جون کا آرڈر کالعدم قرار دے۔

جسٹس بابر ستار نے 25 جون کے حکمنامے میں کہا تھا کہ قانون کے مطابق شہریوں کی کسی قسم کی بھی سرویلنس غیر قانونی عمل ہے، ریاست کی زیر سرپرستی قانونی انٹرسیپشن منیجمنٹ سسٹم کے ذریعے 40 لاکھ شہریوں کی سرویلنس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے، وزیر اعظم اور کابینہ ممبران اس ماس سرویلنس کے اجتماعی اور انفرادی طور پر ذمہ دار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت امید کرتی ہے کہ وزیر اعظم تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں سے رپورٹس طلب کرکے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، وزیر اعظم لا فل منیجمنٹ سسٹم سے متعلق 6 ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کے پابند ہوں گے، وزیر اعظم بتائیں کہ کس قانون و آئین کے برخلاف شہریوں کی سرویلنس جاری ہے؟ وزیر اعظم بتائیں کہ لا فل انٹرسیپشن منیجمنٹ سسٹم کی تنصیب اور ماس سرویلنس کا ذمہ دار کون ہے؟

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین