Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

بھارت کے زندانوں میں40 برس ’ پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے بلند کرنے والے سپاہی مقبول حسین کی آج 5 ویں برسی

Published

on

یہ ستمبر2005 کی بات ہے۔ بھارتی حکومت نے واہگہ کے راستے پاکستانی سول قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔ ایسے قیدیوں کے متعلق عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ بھارتی حدود سے پکڑے گئے مچھیرے اور ایک یا دو سمگلر ہوں گے، معمول کی کارروائی،دونوں طرف سے کیمرے میں محفوظ کئے جانے والے مناظر اور دنیا کو دکھانے کے لئے امن کے پیغام۔

 لیکن اس دن واہگہ کے راستے پاکستان پہنچنے والا ایک پاکستانی عجیب حال میں تھا،الجھے بالوں،ناتواں جسم اور عجیب و غریب سا حلیہ، جذبات سے عاری چہرہ،  پوچھنے پر کچھ نہ بتا پایا، اشارے سے زباں کی طرف اشارہ کرتا۔

کٹی زباں سب اہلکاروں کو نظر آتی ہے۔ زباں کی طرف دیکھنے والے اہلکاروں کے احساسات دیکھ کر اس قیدی کے چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ ابھرتی ہے، آنکھوں میں عجیب سی چمک نظر آتی ہے۔

  ضروری کارروائی مکمل کر کے تمام قیدیوں کو فارغ کر  دیا گیا ۔وہ اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوگئے لیکن بھارت سے رہائی پاانے والے اس بے زبان قیدی کو متعلق بارڈر حکام فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس کا کیا کریں۔

قیدی کو بلقیس ایدھی سنٹر بھجوا دیا گیا، اخبارات میں اشتہارات  دیئے گئے، مقبول حسین کی ایک بہن حیات تھیں جن کا ایک بیٹا آرمی سے ریٹائرڈ تھا، اسے خبر ملی کہ بھارت کی طرف سے آنے والے قیدیوں میں اس کے ماموں ہو سکتے ہیں۔

بشارت حسین نے تمام عمر اپنی ماں سے مقبول حسین کے بارے میں ہی سنا تھا، وہ اس کا سچا ہیرو تھا۔ بشارت نے کبھی یقین نہیں کیا تھا کہ مقبول حسین اس دنیا میں نہیں رہے، بشارت ایدھی سنٹر پہنچا، مقبول حسین کو دیکھا۔اس کی تصویر اپنی والدہ کو دکھائی اور مختلف علامات اور نشانات سے پہچان لیا گیا۔

سپاہی مقبول کے عزیز محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں بلقیس ایدھی ہوم سے آبائی گائوں ناریاں تراڑ کھل ضلع سندھنوتی آزادکشمیر لے گئے اور پھر ایک انکشاف جو تمام پاکستان کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا، یہ نیم پاگل نظر آنے والا شخص سپاہی مقبول حسین تھا، کشمیر میں ہونے والے آپریشن کا سپاہی جو دشمن کی قید میں زندگی کے چالیس برس گزار کر اپنی دھرتی ماں کے پاس واپس پہنچا تھا۔ اس دعوے کے پیش نظر مقبول حسین کو کشمیر رجمنٹل سنٹر  لایا گیا، کمانڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا۔ اور ایک کاغذ پر یہ نمبر لکھا۔

“355139 “

 کمانڈنٹ کو کٹی زباں والے شخص کے بارے میں اتنا ہی تجسس تھا جس کا اظہار دوسرے لوگ کر رہے تھے۔ کمانڈنٹ کے حکم پر قیدی کے لکھے نمبر کی مدد سے جب ایک پرانی فائل کھولی گئی تو یہ واقعی سپاہی مقبول حسین تھا. وہ مقبول جس کو جنگ کے دوران نہ ملنے کے سبب ایک مخصوص وقت کے بعد شہید قرار دے دیا گیا تھا۔

مقبول حسین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کر کے واپس آ رہا تھا کہ اسی دوران اس کی دشمن سے جھڑپ ہو گئی۔ سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے ہوئے تھا۔ اپنے افسروں سے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی مشین گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اسی دوران وہ مقابلے میں زخمی ہو گیا ۔ سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے مگر ساتھیوں کی حفاظت اور مشکل کا سوچ کر مقبول حسین نے خود کو ایک کھائی میں گرا لیا۔ساتھی اسے تلاش کرتے رہے جبکہ وہ آنے والے دشمن کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ساتھی جب اسے ڈھونڈ نہ سکے تو آگے بڑھ گئے اور پھر مقبول حسین نے اپنی مشین گن سے دشمن کو مسلسل الجھائے رکھا۔اسی دوران اسے مزید گولیاں لگیں اور وہ دشمن کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گیا۔

جب جنگ ختم ہوئی تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا اس دوران بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا۔ اس لئے پاک فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کر لیا، یادگار شہدا ء پر بھی اس کا نام کندہ کر دیا گیا۔ بھارتی افواج نے مقبول حسین پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے،اسے چار فٹ کی کوٹھری میں بند کرکے تشدد اور اذیت سے دوچار کیا گیا۔ پائوں سے ناخن اورمنہ سے دانت اکھاڑ دئیے گئے، اس کی زباں پر ایک ہی نعرہ ہوتا، پاکستان زندہ باد۔ وہ اسے مجبور کرتے کہ پاکستان کو گالی دومگر اس کی زباں پر صرف اپنے عزیز وطن کا نعرہ ہوتا۔

 بھارتی فوجی اس پر ٹوٹ پڑتے اور تشدد کا نشانہ بناتے،یہ ان(سپاہی مقبول حسین) کے لئے برداشت اور حب الوطنی کا ٹیسٹ کیس تھا۔وہ اسے جنگی قیدی کا سٹیٹس بھی اس لئے نہیں دے رہے تھے کہ مقبول حسین ان کے لئے ایک ضد تھا، چیلنج تھا جبکہ مقبول کے لہو میں تو صرف اس وطن کی محبت تھی۔

  سپاہی مقبول حسین ڈٹا رہا۔ اس کی ہمت کے سامنے بھارتی سپاہ کچھ بھی نہ کر پا رہی تھی۔ وہ تو بس ایک نعرہ لگاتا۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔

مقبول حسین کے نعروں سے جیل کے در و دیوار گونج اٹھتے،  آخر انھوں نے اس کی زبان سے بدلہ لینے کا سفاکانہ فیصلہ کر لیا، انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی،اب وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگا سکتا تھا، ہاں مگر وہ لکھ سکتا تھا، وہ جیل کی چار فٹ چوڑی دیوار پر لکھتا رہا ۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔  اور 355139 وہ آرمی نمبر جسے وہ کبھی بھولنا نہیں چاہتا تھا۔

مقبول حسین بھولنا تو اپنی اس منگیتر نصیراں کو بھی نہیں چاہتا تھا جو مقبول حسین کی منتظر تھی.اپنی بہن سرور جان جو اس کی لاڈلی تھی۔ وہ اس ماں کو بھی نہیں بھولنا چاہتا تھا جس نے مقبول کی شہادت کا خط ملنے کے بعد کہا تھا کہ میرا مقبول زندہ ہے۔ وہ ایک دن ضرور واپس آئے گا اور پھر وہ تمام عمر اس گائوں کے داخلی حصے میں رہتے ہوئے انتظار کرتی رہی، وہ کہتی تھی کہ مجھے گائوں کے داخلی راستے  میں دفن کیا جائے، میں اپنے مقبول کا استقبال کروں گی۔

سپاہی مقبول حسین نے 1965 سے لے کر 2005 تک اپنی زندگی کے 40  بہترین سال اس اندھیری کوٹھری میں گزار دئیے۔ کٹی زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم سے بہتے خون کی مدد سے پاکستان زندہ باد لکھ دیتا۔ یوں سپاہی مقبول حسین نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس وطن پر وار دیئے نہ جھکا،نہ ڈرا، ہاں رویا ضرور ہوگا،  فوجی تھا مگر تھا تو ایک گوشت پوست کاانسان۔

اس کا دل بھی اپنے وطن اور ماں کی محبت میں رویا ہوگا، اس کے گال بھی بھیگے ہوں گے، نہ کسی اعزاز کا لالچ، نہ کسی مرتبے کی تمنا، اس فوج کا سب سے جونیئر اہلکار اور اس فوج کے سب سے بڑے عہدے دار سے بھی زیادہ معتبر اور قابل قدر، مٹی کی محبت اور آغوش اسے واپس کھینچ لائی، مگر ایک زندہ لاشے کی مانند۔

 آج اگست 2023  کی 28 تاریخ ہے، مقبول حسین آج ہی کے دن 2018 میں  اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لئے موند کر اس مٹی میں دفن ہوا۔

اب وہ بظاہر ہم میں نہیں مگر ہم سب میں ہے، ہمیشہ رہے گا، وہ اس مٹی کا سچا بیٹا تھا، اس نے وردی کو گالی دینے والے اپنوں کے لئے زندگی کے چالیس سال دشمن کے ظلم سہے۔ اس نے کسی تنخواہ اور عہدے کے لئے اپنی زندگی نہیں گزار ی بلکہ اس دھرتی ماں کے وقار اور تقدس کے لئے، جب تک یہ دنیا ہے، دنیا کی افواج ہیں سپاہی مقبول جیسے بیٹوں کی بدولت ہی اپنی سرزمین کے سچی محافظ ہیں، اس محافظ وطن کو ستارۂ جرأت کے اعزاز سے نوازا گیا۔

آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر میں انہیں نہایت عزت و احترام سے ٹھہرایا گیا، ان کے علاج اور آرام کے لئے ہر سطح پر ہر کوشش کی گئی۔ان کو ہر سہولت فراہم کی گئی، وہ ہم سب کے مان اور سچے ہیرو تھے۔

28 اگست 2018 شام سات بج کر پندرہ منٹ…مقبول حسین دار فانی سے رخصت ہوئے… پاکستان کے اس بہادر بیٹے کے لئے سلام عقیدت۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین