کالم
آج آخری دن، کیا صدر علوی، رفیق تارڑ کی طرح گھر جائیں گے؟
ویسے تو وطن عزیز کی سیاست میں ہر آنے والا دن بہت ہی اہم ہوتا ہے لیکن سیاسی حلقوں میں بعض مہینوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جیسے ستمبر کے مہینے کو ہمیشہ ‘ ستمگر’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بار ستمبر کا مہینہ واقعی بہت ستمگر اور ہنگامہ خیز ثابت ہورہا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ آج رات کو صدرمملکت عارف علوی کی مدت عہدہ ختم ہورہی ہے۔ جبکہ 16 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال بھی ریٹائر ہورہے ہیں۔
تاہم ایک انتہائی اہم نکتہ سیاسی، آئینی، عدالتی حلقوں اور طاقت کے مراکز میں زیربحث ہے کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو سینئیر ترین جج جسٹس فائز عیسی چیف جسٹس آف پاکستان بن جائیں گے اور اس حوالے سے دوماہ پہلے ہی ان کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے لیکن پی ٹی آئی مخالفین دل تھام کررکھیں کہ صدر مملکت عارف علوی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان سے چھٹکارا فوری ممکن نہیں کیونکہ صدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے صدر کے انتخاب کے لئے الیکٹورل کالج یعنی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں۔ لہذا آئین پاکستان صدرمملکت کو یہ آپشن دیتا ہے کہ نئی اسمبلیوں کی تشکیل اور نئے صدر کے انتخاب تک صدر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسٹبلشمنٹ اورتحریک انصاف کے مابین گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری کشمکش کے دوران ملک میں ہر اہم عہدے سے پی ٹی آئی کے چہرے اقتدار سے ہٹا دئیے گئے۔ عمران خان کے جانے کے آزادکشمیر کے انصافی وزیراعظم اور گلگت بلتستان کے وزیراعلی بھی محفوظ نہ رہ سکے لیکن اگر کوئی اپنی جگہ پر برقرار رہا تو وہ صدرعارف علوی تھے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد جب تمام ارکان قومی اسمبلی نے ان کے حکم پر اسمبلی رکنیت سے استعفے دئیے تو سننے میں آیا تھا کہ صدر بھی ازخود استعفی دیکر گھر جانے والے ہیں لیکن شاید اس تمام بحران میں عمران خان سے اگر کسی نے کوئی عقلمندی کا کام کروایا تو وہ یہی تھا کہ انہوں نے صدر علوی کو ایوان صدر نہیں چھوڑنے دیا یا پھر علوی صاحب نے ہی ‘ستر سالہ اینگری ینگ مین’ کو اس بات پر قائل کیا۔
اب صورتحال یہ بنی کہ پی ڈیم ایم اور اسٹبلشمنٹ خواہش کے باوجود صدر علوی سے جان نہیں چھڑا سکے۔
پی ڈی ایم کے پاس پارلیمنٹ میں مواخذے کے ذریعے صدر کو گھر بھیجنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا لیکن یہ اس لئے ممکن نہ تھا کہ مواخذے کے لئے الیکٹورل کالج میں پہلے تو ان کے پاس مطلوبہ ارکان نہ تھے او پھر پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد یہ کام بالکل ہی ناممکن ہوگیا۔
دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی آئینی طور پر کوئی آپشن نہیں تھا کہ وہ صدر کو گھر بھیج سکے۔ اس لئے عمران حکومت کے خاتمے کے ڈیڑھ سال بعد تک پی ڈی ایم، نگران حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو صدرعلوی کا وجود ایوان صدر میں برداشت کرنا پڑا۔
صدرعارف علوی کی مدت عہدہ آج رات نو ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں اب مزید ایوان صدر میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ حالات کچھ ایسے ہوسکتے ہیں کہ وہ ایک دن خود ہی ذاتی وجوہات کو بنیاد بنا کر ریٹائرمنٹ اختیار کرلیں گے۔ اس سلسلہ میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ان سے حالیہ میٹنگ کو بھی اسی تناظر میں اہم قرار دیا جارہا ہے۔
دوسری طرف سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر صدر کو گھر بھیجنا اتنا آسان ہوتا تو عمران خان کے بعد ان سے بھی جان چھڑائی جا چکی ہوتی۔ یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ صدرعلوی، عمران خان کی کورٹیم کے واحد رکن ہیں جنہوں نے ریاست کے اعلی ترین عہدے کا ہرمرحلے پر پورا فائدہ اٹھایا۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو آرمی ترمیمی ایکٹ، نیب ترمیمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پنجاب میں انتخابات کے معاملات پر ٹف ٹائم دیا۔ ان کے ایک ٹویٹ کی بنیاد پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی ترامیم اب عدالتی رحم و کرم پر ہیں۔
اب اگر اسٹبلشمنٹ کی بات کریں تو چونکہ انہوں نے اب تک تمام کام آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کئے ہیں۔ اس لئے صدر پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اس لئے اب بھی یہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کہ صدر کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں دباو میں لا کر استعفے پر مجبور کیا جائے گا۔ تاریخی حوالے سے دیکھیں تو 12 اکتوبر 1999 کو جب جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کا خاتمہ کیا تو آئین کو معطل کرنےکے باوجود انہوں نے نوازشریف کے دست راست، اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو عہدے سے نہ ہٹایا بلکہ خود ملک کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اختیار کیا۔ البتہ جب انہوں نے بھارت کا دورہ کرنا تھا تو اس کے لئے کوئی آئینی منصب درکار تھا تب انہوں نے 20 جون 2001 کو رفیق تارڑ کو بھی ایوان صدر سے رخصت کیا اور خود صدر مملکت بن گئے یعنی کلی اختیارات کے مالک ایک فوجی حکمران کو بھی صدر کو رخصت کرنے کے لئے ڈیڑھ سال انتظار کرنا پڑا۔ اب بھی صدر عارف علوی کو گھر بھجوانا لازمی ٹھہرا تو یہ تارڑ ہٹاؤ فارمولے کے بغیر ممکن نہیں۔
تاہم آج تو صورتحال 1999 سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت ملک میں ایک آئین موجود ہے۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوئی ہیں۔ آئین کے تحت مرکز اور چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں اورالیکشن کمیشن آف پاکستان نئے انتخابات کی ‘بظاہر تیاریوں’ میں مصروف ہے۔
ماہر قانون عابد ساقی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں آئین صدر کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے پوری اجازت دیتا ہے۔ انہیں نئے صدر کے انتخاب تک عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ عابد ساقی کہتے ہیں کہ مدت عہدہ ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ مدت میں ان کے نگران کردار کا بھی آئین میں کوئی تصور موجود نہیں۔ وہ آئین میں حاصل تمام اختیارات کے ساتھ اپنے عہدے پر موجود رہ سکتے ہیں جب تک کہ وہ خود ہی ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں۔ ایسی صورت میں آئین کے آرٹیکل 49 کے تحت چئیرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
بہرحال کھیل دلچسپ مرحلے میں ہے۔ دیکھنا ہے کہ صدر علوی مدت عہدہ ختم ہونے کے بعد اپنی پوزیشن کو کس طرح برقرار رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سروس کے آخری آٹھ دن بھی بڑے اہم قرار دیئے جارہے ہیں۔ نیب ترمیمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ جیسی اہم ترین قانون سازی پر ان کے فیصلے ملکی سیاست میں بھونچال لا سکتے ہیں۔ کوئی لندن میں ہے، کوئی دبئی میں اور کوئی اٹک جیل میں ۔۔۔۔۔ سب دم سادھے بیٹھے ہیں۔ الیکشن ہوں گے ؟ کب ہوں گے؟ ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب یہی ‘ستمگر’ کرے گا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی