Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) کے بیچ کیا چل رہا ہے؟

Published

on

حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کی اطلاعات گردش میں ہیں. پیپلز پارٹی نے اپنے تحفظات کے بارے میں مسلم لیگ نون کو بھی آگاہ کیا ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا دو بڑی جماعتوں میں اختلافات کو ختم کیا جاسکتا ہے یا پھر میں  اس شدت آئے گی۔

مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دو حریف سیاسی جماعتیں ہیں لیکن ان کا سفر حریف سے حلیف اور پھر حریف کے دائرے میں چل رہا ہے. دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی کڑی مخالف ہونے کے باوجود ایک دوسرے ساتھ بھی چلیں بلکہ میثاق جمہوریت نامی پر بھی دستخط کیے۔

سیاست میں دوستی اور مخالفت دائمی نہیں ہوتی اور ملکی تاریخ ایسے ابواب سے بھری ہوئی ہے جب سیاسی عناد کی حد کو چھونے والی جماعتیں ایک دوسرے ساتھ بیٹھیں جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

مسلم لیگ قاف یعنی چودھری بردارن کی پیپلز پارٹی حکومت میں شمولیت ہو، پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ نون کی حکومت میں شراکت داری ہو یا ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی پیپلز پارٹی کی سربراہی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس یعنی پی ڈی اے میں شامل ہونا اور سے بڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو مخالف پی این اے کی جماعتوں کا ایم آر ڈی میں شامل ہونا کسی اچنھبے سے کم نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے تازہ اختلافات سے ایک بات تو ظاہر ہے کہ   یہ اتحاد  فطری نہیں ہے بلکہ سیاسی بساط پر ایک سمجھوتہ ہے. اس کی بنیادی وجہ دو سیاسی جماعتوں کا نظریاتی فرق ہے اور دونوں کے ووٹرز زیادہ دیر تک ایک دوسرے کیساتھ اکھٹے نہیں رہ سکتے۔

یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں  اتحاد بھی رہا ایک دوسرے کے مخالف بھی رہے. 2008 میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی تو مسلم لیگ نون وفاق میں اس کا حصہ تھی، پیپلز پارٹی پنجاب حکومت میں شامل ہوئی. مسلم لیگ نون ججز کی بحالی کے معاملے پر حکومت سے الگ ہوگئی اور اپوزیشن میں جاکر بیٹھ گئی۔ اسی وجہ سے پرویز الٰہی کو قائد حزب اختلاف کا منصب چھوڑنا پڑا اور یہ عہدہ چودھری نثار علی خان کو مل گیا۔  پیپلز پارٹی حکومت کے آخری دنوں میں پرویز الٰہی کابینہ میں شامل ہو گئے اور انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر مقرر کیا گیا۔

دوسری طرف مسلم لیگ نون کی وفاق میں علیحدگی کے بعد ججز بحالی پر دونوں جماعتوں میں اختلافات شدید ہوئے تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا اور شہباز شریف کی حکومت کو معطل کر دیا. اس کے بعد پیپلز پارٹی بھی پنجاب سے الگ ہوگئی. 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون نے حکومت بنائی اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں چلی گئی۔

پیپلز پارٹی  پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے چناؤ کے معاملے پر مدمقابل ہوئیں. پیپلز پارٹی نے چیئرمین پی سی بی کیلئے  مسلم لیگ نون کے حمایت یافتہ نجم سیٹھی کے مقابلے میں ذکا اشرف کا نام تجویز کر دیا. اس سے پہلے یہ معاملہ طول پکڑتا نجم سیٹھی پی سی بی کے سابق سربراہ ذکا اشرف کے حق میں دستبردار ہوگئے. اس طرح  یہ معاملہ  تو سلجھ گیا لیکن چنگاری کہیں نہ کہیں ضرور سلگ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے استعفی دے دیا. ان کو نگران پنجاب حکومت نے تعینات کیا تھا. ان کا خاندانی پس منظر پیپلز پارٹی سے ہے لیکن کے مستعفی ہونے کے بعد خالد اسحاق کو نیا ایڈووکیٹ جنرل بنایا گیا جو وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے قریبی رفقاء میں شامل ہیں اور مسلم لیگ نون کی مختلف مقدمات میں پیروی کر چکے ہیں۔

یہ بھی قابل فہم نہیں ہے کہ اچانک سے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری عمر حامد خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں کو ایک چٹھی کے ذریعے غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کی ہے اور زور دیا کہ وہ  شفاف انتخابات پر توجہ دیں۔ اس چٹھی کو ایک رسمی کارروائی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن اس الھجن کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا کہ آخر کیا ضرورت تھی. یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ چٹھی کس کے کہنے پر لکھی گئی اور اس کے ذریعے کس کو کیا پیغام دینا ہے؟

پیپلز پارٹی نے پنجاب کی نگران حکومت پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں. یہ وہی نگران حکومت ہے جس کے سربراہ یعنی نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی  کو آصف علی زرداری کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے یا پھر دوسرے الفاظ وہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے اپنے ہی آدمی ہے. اس سب کے باوجود پھر پیپلز پارٹی کو پنجاب کی نگران حکومت سے کیا مسئلہ ہے؟ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ نگران حکومت اُن کی جگہ مسلم لیگ نون کے احکامات کو ترجیح دے رہی ہے۔

وفاق میں نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو حلیف سے حریف بنا سکتا ہے. اس وقت نگران وزیر اعظم کیلئے دونوں جماعتوں کا اپنا اپنا امید وار  ہے. اس وقت وقت تین صحافیوں سمیت ایک بزنس مین کا نگران وزیر اعظم کیلئے نام لئے جا رہے ہیں. آصف علی زرداری برنس مین کے حامی ہیں۔

 آئین کے تحت وزیر اعظم شہباز شریف نے نگران سیٹ اپ کیلئے  اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنی ہے. اپوزیشن لیڈر پہلے ہی مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں. اس لیے مسلم لیگ نون کو اپنی پسند کا نگران وزیر اعظم مقرر کرنے آئینی طور پر تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے البتہ اس مرتبہ اپوزیشن لیڈر کی جگہ حکومت کو اپنے اپنے اتحادیوں کو قائل کرنے کی ضرورت ہوگی۔  نگران وزیر اعظم کے تقرر پر حکومت اپنے اتحادی کو کیسے راضی کرتی ہے اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل درآمد ہوتا ہے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ نومولود سیاسی جماعت استحکام پارٹی کس کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود جو استحکام پارٹی کے کرتا دھرتا جہانگیر ترین کے قریبی رشتہ دار ہیں وہ پیپلز پارٹی اور استحکام پارٹی کو قریب لانے میں کیا کردار ادا ادا کرتے ہیں؟ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حال ہی میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت کے ایک اہم رہنما علیم خان کے میڈیا چینل پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے صحافی کی تکرار کی خبر نشر ہوئی حالانکہ ایک بڑے عرصے سے یہ ہی ٹی وی اس طرح کی خبر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا تھا۔

آئندہ انتخابات میں پی ڈی ایم کے پیلٹ فارم سے انتخاب لڑنے کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور خاص طور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون انتخابی معرکے میں حلیف کی جگہ حریف کے طور پر آمنے سامنے ہونگے۔

جیسے سیاست میں رقیب کا  رفیق بننا کوئی انہونی نہیں ہے اسی طرح رفاقت کب رقابت میں بدل جائے یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں. اس کی تازہ ترین مثال چودھری بردارن میں دوریاں ہیں۔ شائد اسکی بنیادی وجہ  یہ ہے کہ پارٹی تعلق سے زیادہ پارٹی مفاد زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین