کالم
انتخابات کا التوا کون چاہتا ہے؟
اللہ اللہ کرکے انتخابات کی تاریخ 8 فروری کو مقرر ہوئی۔جس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ انتخابات پر جو شکوک و شبہات کے جو بادل ہیں شاید وہ ختم ہوجائیں گے لیکن اِس کے برعکس ہورہا ہے۔انتخابات پر قیاس آرائیاں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ رہی ہیں ۔پہلےمولانا فضل الرحمان نے خراب موسم کو بنیاد بنا کر انتخابات میں تاخیر کا مطالبہ کیا۔اب یہ مطالبہ سینیٹ کی جانب سے بھی سامنے آیا۔معاملہ تب شروع ہوا جب اچانک سے سینیٹ میں ایک قرار داد پیش کی گئی ۔
یہ قرار داد سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرانے کی تھی جس کو آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کیا۔دلاور خان نےاپنی قرار داد میں مؤقف اختیار کیا کہ کے پی اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں۔ قرار داد میں خراب موسم کو بھی جواز بناکر کہا گیا کہ اکثر علاقوں میں سخت سردی ہے، اس وجہ سےان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔ قرار داد میں یہ بھی کہاگیا کہ جے یو آئی ایف کے ارکان اور محسن داوڑ پر حملہ ہوا، الیکشن کی ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں۔غرض یہ کہ قرار دادمیں 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کرنےکا مطالبہ کیا گیا۔
اب سینیٹ میں اچانک سے اِس قرار داد کو کیسے پیش کیا گیا اور افراتفری میں منظور بھی کرلیا گیا جبکہ ایوان کا کورم بھی پورا نہیں تھا صرف 14 سینیٹرز موجود تھے ۔اس کی کہانی سینئر تجزیہ کار حامد میر کچھ یوں بتاتے ہیں کہ جس وقت یہ قرار دادپیش کی گئی وہ خود اُس وقت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے آفس میں موجود تھے ۔چیئرمین سنیٹ کے آفس میں مختلف سینیٹرز بھی موجود تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھیں ۔ہنسی مذاق ہو رہا تھا، قہقے لگ رہےتھے ۔صادق سنجرانی سینیٹرز کو یہ بتا رہے تھے کہ 35 کے قریب صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں بلوچستان میں ہیں اُن پر بلوچستان عوامی پارٹی اپنے اُمیدوار کھڑے کر رہی ہے اور صوبے میں وہ اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
حامد میر کے بقول صادق سنجرانی پر ماضی قریب میں یہ دباؤ بھی تھا کہ وہ مسلم لیگ ن جوائن کریں پھر اُن پر زور ڈالا گیا کہ وہ پیپلزپارٹی جوائن کرلیں۔لیکن اُنہوںنے نہ صرف یہ دباؤ برداشت کیا بلکہ دباؤ ڈالنے والوں کو بھی یہ یاد کروایا کہ دیکھیں چاہے ہماری جماعت چھوٹی ہی سہی لیکن ہم نے یہ پارٹی بنائی ہے تو ہم اس کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ اِس کے ساتھ ہی رہیں گے ۔حامد میر بتاتے ہیں کہ صادق سنجرانی کے آفس میں اچانک سے ایک شخص نمودار ہوا اور اُس شخص نے صادق سنجرانی صاحب کے کان میں کوئی بات کی۔جس کے بعد چیئرمین سینیٹ وہاں سے فوری اُٹھے اور نیچے تشریف لے گئے۔کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ہو کیا رہا ہے ۔
بقول حامد میر صاحب کے جو سینیٹرز وہاں بیٹھے تھے وہ بھی چیئرمین سینیٹ کے کچھ دیر بعد نیچے آنے لگے جب حامد میر صاحبنے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جارہے ہیں تو سینیٹرز کہنے لگے کہ نیچے اجلاس شروع ہونے والا ہے ۔ جب حامد میر صاحب نیچے گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ اُس وقت 12 کے قریب سینیٹرز موجود تھے۔اور دوسنیٹرز بعد میں بھی آئے اور جو سنیٹرز وہاں موجود تھے اُن کی اکثریت باپ پارٹی سے ہی تھی ۔یعنی سینیٹ میں موجود لوگوں کا تعلق یا تو صادق سنجرانی کی جماعت سے تھا یا وہ آزاد تھے۔پھر اچانک سے دلاور صاحب کی جانب سے یہ قرار داد پیش کی گئی اور ایک دم سے وہ منظور بھی کرلی گئی ۔اِس پر پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر بہرہ مند تنگی جو یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے قرار داد سےاختلاف کیا لیکن بقول حامد میر صاحب کے اُنہوں نے وہاں بالکل بھی اختلاف نہیں کیا بلکہ وہ خاموش رہے اور اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی نے انہیں پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ممکن ہے پیپلزپارٹی وکٹوں کی دونوں جانب کھیل رہی ہو کیونکہ وہ ماضی میں بھی ایسے کھیلتی رہی ہے ۔البتہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ نے نہ صرف اُس قرار داد کی مخالفت کی بلکہ اُس پر احتجاج بھیریکارڈ کروایا۔پھر اِسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر گردیپ سنگھ نے افنان اللہ کو سپورٹ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو کس کا پیغام آیا اور کس کے کہنے پر اچانک سے قرار داد کوپیش اور منظور کرلیا گیا ہے تو اِس حوالے سے حامد میر صاحب فرماتےہیں کہ اُنہوں نے نومبر میں اپنے ایک پروگرام میں بھی کہا تھا اور حالیہ دنوں میں بھی اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ موجودہ نگران وزیراعظم نہیںچاہتے کہ انتخابات ہوں یعنی وہ اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں اِس لیے وہ الیکشن کا التوا چاہتے ہیں ۔اب ساری کہانی کا نچوڑ نکالاجائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک تو صادق سنجرانی کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو آئندہ الیکشن جب بھی ہوں تب صوبے میں آئندہ حکومت دی جائے گی اور ممکن ہے اُن کوکوئی بڑا عہدہ بھی دیا جائے گا بڑے عہدے سے مراد وزیر اعلی بلوچستان بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری بات اِس وقت نگران وزیر اعظم پہلےہی تنازعات کا شکار ہیں اُن کی نیت پر تحریک انصاف پہلے ہی سوال اُٹھا چکی ہے کہ یہ انتخابات میں نہ صرف رکاوٹ بن رہے ہیں بلکہ وہ اِس کوشش میں بھی ہیں کہ اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو تحریک انصاف دیوار سے لگ جائے۔
اگر حامد میر کی کہانی درست ہے تو پھر اِس اعتبار سے نگران وزیراعظم کی یہ کوشش ہوگی کہ انتخابات التواکا شکار رہے تاکہ وہ اہم سیٹ پر براجمان رہیں لیکن اب سینیٹ کی الیکشن التو اکی قرار داد میں اِن کا ہاتھ بھی ہے یہ چہ مہ گوئیاں صحافتی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ہورہی ہیں ۔گو کہ مرتضیٰ سولنگی نے اِس قرار داد کو رد کیا ہے ۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ پیپپلز پارٹی جو ن لیگ کو الیکشن سے بھاگنے کے طعنے دیتی رہی حالانکہ اپنا کردار یہ تھا کہ اُس نے مردم شماری پر اُس وقت ن لیگ کاساتھ دیا بعد میں اُس کو ن لیگ کی جانب سے انتخابات سے راہ فرار اپنانے کا الزام لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی پوری کوشش کی لیکن پہلے بھی اپنے دوہرے رویے کی وجہ سے ایکسپوز ہوئی اور اب ایک بارپھر وہ اِس قرار داد کی وجہ سے بے نقاب ہوئی جب اِس کے سینیٹر نے چپکے سے قرار داد کی حمایت کی ۔جبکہ پیپپلزپارٹی کاموقف ہے ان کے سینیٹر نے اپنی طرف سے قرار داد کی مخالفت کی۔ممکن ہے پیپلزپارٹی درست بھی ہو۔لیکن اگر پیپلزپارٹی انتخابات سےبھاگنا چاہتی ہے تو اِس کی وجوہات بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔
ظاہرہے پیپلزپارٹی کو پتہ ہے پنجاب میں اِس کی دال گلنے والی نہیں ۔بلاول بھٹو لاہور سے الیکشن ضرور لڑ رہے ہیں لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی کاصفایا ہوچکا ہے ۔اور پنجاب کے بغیر وفاق میں حکومت ملنا مشکل ہے ۔سب سے بڑھ کر اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تو سندھ بھی اُس کے ہاتھ سے پھسل سکتا ہے ۔کیونکہ وہاں ن لیگ ،ایم کیو ایم سمیت دیگر سندھ کے جماعتوں کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اِسی لیے پیپلز پارٹی الیکشن التوا کے بہانے ڈھونڈے یہ سمجھ میں آتا ہے۔
بہرحال اِس قرار داد کے ذریعے وہ چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں جو جمہوریت کاراگ الاپتے ہیں ۔ آپ دیکھئے وہ ن لیگ جس پر الیکشن التوا کی کوشش کروانے کا الزام لگ رہا ہے اُسی کے سینیٹر افنان اللہ نے قرارداد کو مسترد کیا جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ن لیگ الیکشن کے میدان میں اُترنے کیلئے ہر صورت تیار ہے ۔ ۔بہرحال اِس قرار دادکی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں لیکن سینیٹ اراکین کے ارادے ضرور ظاہر ہوگئے ہیں جو الیکشن کے حوالے سے بالکل بھی نیک نہیں ہیں ۔ویسے بھی الیکشن کمیشن اِس قرار داد کے منظور کیے جانے کے بعد یہ کہہ چکا ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔ اب سینیٹرمشتاق احمد نے بروقت انتخابات کے حق میں قرار داد سینیٹ میں پیش کی ہے ۔انتخابات کو وقت پر ہی ہونا چاہیے ۔ملک میں سیاسی استحکام کیلئے صاف اور شفاف انتخابات ناگزیر ہیں ۔
وقتی طور پر فائدے کیلئےالیکشن کا التوا چاہنے والے جمہوریت کے بڑے دشمن ہیں ۔جنہیں صرف اپنا مفاد نظر آرہا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو اِس مفاد پرست ٹولے کو عوام آئندہ انتخابات میں مسترد نہ کردے ۔اگر ایسا ہوگیا تو پھر عوام کےمسترد کرنے کے ریڈار پر نگران وزیر اعظم،صادق سنجرانی اور اِن کیجماعت اور پیپلزپارٹی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین6 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی