Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

چین جمود کی شکار معیشت کی بحالی کے لیے بے چینی کیوں نہیں دکھا رہا؟

Published

on

چین کی معیشت جمود کا شکار ہے اور ملک میں ریئل سٹیٹ سیکٹر بحران سے مالی استحکام کو بھی خطرات ہیں لیکن چین کے رہنما دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی بحالی کے لیے جلدی نہیں کر رہے، اس بات پر بے چینی بڑھ رہی ہے۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بیجنگ کووڈ کے بعد کی بیمار معیشت کی بحالی کے لیے درکار جرات مندانہ پالیسیاں فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟

یہ صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں ہے بلکہ جغرافیائی سیاسی مسئلہ ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن تائیوان جیسے ہاٹ بٹن ایشوز پر چین کے ساتھ تنازع کو بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں،بیجنگ  تائیوان پر دعویٰ کرتا ہے۔ بائیڈن نے گزشتہ ہفتے چین کو اس کی معاشی خرابیوں کی وجہ سے “ٹکنگ ٹائم بم” قرار دیا۔ بائیڈن نے کہا ، “یہ اچھا نہیں ہے کیونکہ جب برے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو وہ برے کام کرتے ہیں۔”

چین کا ردعمل اتنا سخت کیوں ہے؟

چین کے متعدد مبصرین کا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ کی قومی سلامتی پر توجہ ان کی اقتصادی کوششوں کو محدود کر رہی ہے، جبکہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی معیشت کی جانب توجہ دے رہا ہے۔

Gavekal Dragonomics میں چائنا ریسرچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرسٹوفر بیڈور نے کہا، بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قیادت نے حکام کو قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی میں توازن رکھنے کی مبہم ہدایات دی ہیں، اگر حکام کو یقین نہیں ہے کہ قیادت ان سے کیا کرنا چاہتی ہے، تو امکان ہے کہ وہ کسی بھی کارروائی کو اس وقت تک روک دیں گے جب تک کہ وہ مزید معلومات حاصل نہیں کر لیتے۔ اس کا نتیجہ پالیسی کے فالج زدہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے، چاہے یہ اس کی قیمت  کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

چین میں تبدیلی پر وقت لگ سکتا ہے اور اس کی مثال کووڈ 19 سے متعلق فیصلوں کی دی جا سکتی ہے، جب ساری دنیا نے لاکھ ڈاؤن اٹھا لیا تھا لیکن چین کے بڑے شہر لاک ڈاؤن تھے۔

چین نے ماضی میں بحرانوں کے دوران بروقت اقدامات بھی کئے، 2009-9 میں ترقی کے متعلق خدشات اور 2015 میں ملک سے سرمائے کے اخراج پر اقدامات اس کی مثالیں ہیں۔

بڑی پالیسی میں تبدیلی بھی اکثر بہت زیادہ تیاری کے ساتھ کی جاتی ہے، دسمبر میں ہونے والی اقتصادی میٹنگ میں عام طور پر ایسی قراردادیں مرتب کرنے کا مقام ہوتا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو کھپت اور کاروباری اعتماد کو بڑھانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، جیسے کہ ٹیکسوں میں کٹوتیاں یا حکومت کی جانب سے مالی اعانت سے چلنے والے کھپت کے واؤچر، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اس معاشی صورتحال کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے بدھ کے روز میڈیا کو بتایا کہ مغربی سیاست دانوں اور میڈیا کی ایک چھوٹی سی تعداد چین کی اقتصادی بحالی میں موجود عارضی مسائل کو بڑھاتی اور بڑھاوا دیتی ہے، بالآخر انہیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وانگ کا یہ تبصرہ منگل کے روز کمزور معاشی سرگرمیوں کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد آیا،ان اعداد و شمار سے تشویش پیدا ہوئی ہے کہ چین ایک گہری اور طویل سست روی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

چین کی حکومت نے بے روزگاری سے متعلق اعداد و شمار کی اشاعت کو بھی معطل کر دیا ہے، جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی، تعلیم، رئیل اسٹیٹ اور فنانس کے شعبوں میں بڑے آجروں کے خلاف ریگولیٹری کریک ڈاؤن کی جزوی علامت ہے۔

تفصیلات بتائے بغیر، اسٹیٹ کونسل نے جمعرات کو کہا کہ نجی فرموں کے لیے ماحول کو “بہتر” بنایا جائے گا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے زیادہ کوششیں کی جائیں گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کا مجموعی گھریلو پیداوار کا 60% اور شہری روزگار کا 80% حصہ ہے۔

چین میں تعینات سفیروں کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے مطالبات اور قومی سلامتی کے پیش نظر کریک ڈاؤن کی وجہ سے عدم اطمینان بڑھ رہا ہے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔

اس کی ایک مثال حالیہ جاسوسی مخالف قانون ہے، جس کے تحت کچھ غیر ملکی کنسلٹنسی فرموں پر چھاپے مارے گئے،اس اقدام نےغیر ملکی کاروباری برادری میں بے چینی کی لہریں پیدا کیں۔

سفارتی ذرائع نے بتایا کہ وزارت تجارت کے حکام نے جولائی میں غیر ملکی کاروباری اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کی اور کہا کہ اس قانون سے چین میں کام کرنے والی فرموں کے لیے تشویش کی کوئی بات نہیں۔

سفارت کار نے کہا کہ لیکن اس یقین دہانی نے حکومت اور غیر ملکی کاروباری اداروں کے درمیان صرف ایک “اہم ادراک کے فرق” کی نشاندہی کی۔

ماضی میں چین سے متعلقہ امور پر امریکی محکمہ تجارت کے ساتھ کام کرنے والے بیکر ڈونلسن کہتے ہیں کہ لوگ جو سن رہے ہیں یا سمجھ رہے ہیں وہ یہ کہ ہم ( چین) کاروبار کے لیے کھلے ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سنٹر آن چائنا اکانومی اینڈ انسٹی ٹیوشنز کے ایک اسکالر ژو چینگ گانگ نے کہا کہ چین کے رہنما نجی شعبے میں اعتماد کو بڑھانے کے لیے اقدامات کے ساتھ جلدی نہیں کر رہے تو اس کی مزید گہری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا خوف یہ ہے کہ اگر سرمایہ داری اور نجی معیشت کافی مضبوط ہو گئی تو اسے( پارٹی کو) ختم کیا جا سکتا ہے۔

ژو نے کہا کہ ایسی سوچ صدر شی کے دور میں نمایاں رہی، جنہوں نے اپنی دہائی کے اقتدار کے دوران اختلاف رائے کو دبایا اور ختم کیا اور گزشتہ سال تیسری مدت حاصل کرنے کے بعد اپنی حکومت کو وفاداروں کے ساتھ کھڑا کیا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین