Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

ایمرجنسی اور مارشل لا کے خدشات کیوں؟

سیاسی حلقے خوفزدہ ہیں کہ اداروں کے مابین بڑھتے ہوئی فاصلے کسی بڑے تصادم کا باعث نہ بن جائیں

Published

on

کالموں کے اسی سلسلہ میں چند ہفتے پہلے عرض کیا تھا کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں متعدد فالٹ لائنز موجود ہیں جو کسی بھی حکومت کے وجود میں آنے کے چند ماہ بعد ہی نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک سول ملٹری تعلقات کی فالٹ لائن ہے۔ ان سول ملٹری تعلقات میں ہونے والی صف بندی میں ہمارے ادارے یعنی فوج اور اعلیٰ عدلیہ تاریخی حوالے سے ہمیشہ سیاستدانوں کے متحارب اور متحد نظر آئے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے فوج نے اپنی فیصلہ ساز حیثیت پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا اور یہی معاملہ عمومی طور پر سیاستدانوں اور فوج کے مابین وجہ نزاع بنا۔

جب جب سیاستدانوں نے خارجہ پالیسی پر اپنے محدود اختیار اور کردار سے بڑھ کر خود فیصلے کرنے کی کوشش کی تو کبھی ان کا ہاتھ روک دیا گیا اور ضرورت پڑنے پر مکمل چھٹی ہی کرادی گئی۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ عدلیہ نے فوجی اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیا اور ان کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یہاں تک کے ماضی کے فوجی آمروں کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاز کو بھی اس وقت کی عدلیہ نے آئینی تحفظ دیکر بہت فخر محسوس کیا۔ جس پر انہیں جمہوری قوتوں اور عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سول ملٹری تعلقات میں پائی جانے والی ان دائمی دراڑوں کے بعد پاکستان کے پاور سٹرکچر میں گذشتہ پندرہ سال سے فوج اور عدلیہ کے تعلقات میں کچھ نئی جہتیں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ ریاست کے ان دو بڑے ستونوں میں انتہائی باکمال انڈرسٹینڈنگ کا سلسلہ ساٹھ سال تک تو کامیابی سے جاری رہا لیکن 2006 میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹایا تو تب سے معاملات نے نیا رخ لینا شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی پر پہلے تو وکلا اور پھر عوامی سطح پر سامنے آنے والے ردعمل نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی، جس نے ملک میں کلی اختیارات کے مالک جنرل پرویز ملک کو نہ صرف بری طرح سے زچ کردیا بلکہ انہیں سیاسی لحاظ سے انتہائی کمزور کرکے ان کے اقتدار کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ اس واقعہ کے بعد سے پاکستان میں ایک نئی عدلیہ کا ظہور ہوا۔ جس میں اب ججز ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کو گاہے بگاہے چیلنج کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف کیسز میں طاقتور حلقوں کو جس انداز سے مزاحمت کا سامنا ہے وہ بھی پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی انداز سے بلڈوز کرنے کی کوشش کی تو اعلیٰ عدلیہ نے ان کا ہاتھ روکا اور قومی اسمبلی کو بحال کرکے تحریک عدم اعتماد کا عمل مکمل کروا کر انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی آئینی مشق پہلی بار مکمل کروانے کا پارلیمنٹ کو پورا موقع فراہم کیا لیکن اس کے بعد جب اسٹبلشمنٹ کی طرف سے عمران کو ٹائٹ کرنے کی کوشش کی گئی اس دوران اگرچہ خود سابق وزیراعظم کا اپنا رویہ بھی کسی طور جمہوری نہ تھا لیکن عدلیہ نے اسٹبلشمنٹ اور پی ڈی ایم حکومت کی ایک نہ چلنے دی۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس غیرمعمولی ریلیف نے عمران خان اور ان کے کارکنوں کی عادتیں بگاڑ دیں اور یہ 9 مئی کے واقعات کا شاخسانہ ثابت ہوا۔

عمومی خیال یہ تھا کہ 9 مئی کے سنگین واقعات کے بعد فوج کے غم وغصے سے معاملات اب پہلے والے نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن ہوا۔ ملک پر برسراقتدار اتحادی حکومت بالخصوص نون لیگ اندر سے تو اس پر راضی ہے کہ اس سے عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور اب انہیں مقدمات میں الجھی اور جیلوں میں بند تحریک انصاف سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ لیکن اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ سے تحریک انصاف کے بانی اور ان کے کارکنوں کو جس انداز سے ریلیف مل رہا ہے اس سے حکومت کی سیاسی استحکام کی خواہشوں کو بھی جھٹکے لگ رہے ہیں۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کیس میں حکومتی اپیل کے دوران جس انداز سے عمران خان کو جیل سے ویڈیو لنک پر سماعت میں شریک کرنے کا اہتمام ہوا وہ بھی غیرمعمولی ہے۔ اس کیس میں جیل میں بند عمران خان کی نمائندگی ان کے وکیل بھی کرسکتے تھے لیکن تحریک انصاف نے باقاعدہ حکمت عملی کے تحت کوئی وکیل عدالت میں کھڑا نہیں کیا اورعمران خان کو خود فریق بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کو عمران خان کو ویڈیو لنک پر کارروائی میں شریک کرنا پڑا۔

یہ بھی ایک لحاظ سے حکومت کے لئے ایک سبکی کا مقام تھا کہ جس شخص کو وہ جیل میں بند رکھنے کے جتن کررہے ہیں وہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے سینکڑوں افراد کے سامنے ظہور پذیر ہوگیا۔ مزید آگے چلیں تو عمران خان جن دو کیسز میں جیل بھگت رہے ہیں ان میں سے ایک بڑا سائفرکیس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڑا دیا۔ اس کیس پر حکومت بہت زیادہ انحصار کررہی تھی۔ دوسرا عدت کیس بھی بظاہر کمزور نظر آرہا ہے جبکہ نو مئی کے واقعات میں دائر کئے گئے متعدد کیسز میں عمران خان سمیت ان کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالتوں سے بری کیا جاچکا ہے۔

یہ تمام واقعات سامنے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کا اندازہ ہو کہ وہ کس طرف جارہے ہیں۔ یہ بات زبان زدعام ہے کہ عمران خان کو باقی کیسز سے بھی ریلیف مل جائے گا اور وہ جلد جیل سے باہر ہوں گے، جبکہ عمران خان جیل کے اندر سے ہی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ جلد حکومت کے خلاف تحریک کی کال دینے والے ہیں، ان کا یہ رویہ ملک میں سیاسی استحام کی خواہشوں کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔ غالبا اسی لئے پنجاب کابینہ میں متعدد مزید الزامات پر ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی منظوری دی ہے تاکہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں ہی رکھا جائے۔

لیکن دوسری طرف جہاں ہماری اسٹبلشمنٹ اور حکومت چاہتی ہے کہ 9 مئی کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے تو دوسری طرف ایک سال گذرنے کے باوجود ایک بھی شخص کو 9 مئی کے سنگین دنگے فساد پر کسی عدالت میں سزا نہیں سنائی جاسکی۔ اس پر حکومت اور طاقت کے مراکز میں شدید بے چینی اور قدرے غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جس کا اظہار واضح طور پر کئی بار ہوچکا ہے۔

اس تمام صورتحال میں پاور سٹرکچر کے ماضی کے دو اتحادی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ دو مختلف سمتوں میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور یہ واضح ہے کہ اب ان میں (سیم پیج ) والی بات نہیں رہی۔ سیاسی حلقے خوفزدہ ہیں کہ اداروں کے مابین بڑھتے ہوئی فاصلے کسی بڑے تصادم کا باعث نہ بن جائیں۔ حالات انتہائی غیریقینی سے دوچار ہیں۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بعض تجزیہ کار ملک میں ایمرجنسی اور مارشل لا کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پرویزمشرف کی ایمرجنسی کو عدلیہ غیرآئینی قرار دے چکی ہے۔ جبکہ موجودہ بدلے ہوئے حالات میں یہ دونوں اقدامات ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہیں۔ اس سے بڑھتا ہوا بحران ٹلے کا نہیں بلکہ مزید سنگین ہوگا۔

اس بظاہر ڈیڈ لاک کی صورتحال سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان اور دیگر سیاسی فریقوں کو مذاکرات کی تجویز انتہائی غور طلب بات ہے۔ اگر سپریم کورٹ کی ہدایت پر آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کی قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں تو ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے سپریم کورٹ کی رائے پر کیوں عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پاور پالیٹکس کے کھلاڑی اپنی اپنی انا کے گھوڑے سے اتریں۔ اپنی ناک سے آگے دیکھنا شروع کریں گے تو ملک بھی آگے بڑھے اور آپ کی سیاست بھی۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین