Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

اتحادی حکومت چل پائے گی؟

2008 میں نون لیگ ایک معاہدے پر عمل کا مطالبہ کررہی تھی، آج 2024 میں پیپلزپارٹی اسی مقام پر کھڑی ہے

Published

on

پاکستان کی سیاست میں 80  اور 90 کی دہائیاں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی باہمی مناقشت کی نذر ہوگئیں۔ دونوں جماعتوں کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے ملک ہمہ وقت سیاسی سازشوں کا گڑھ رہا اور سیاسی عدم استحکام نے ملکی سیاست اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پھر بھلا ہو عمران خان کا کہ اس نے ماضی کے ان روایتی حریفوں کو اکٹھا ہونے پر مجبور کردیا۔ 2024 کا الیکشن دونوں جماعتوں نے بظاہر ایک دوسرے کے مقابل لڑا۔ بلاول بھٹو نے انتخابی مہم میں نون لیگی قیادت کے خلاف کم و بیش وہی لب و لہجہ اختیار کئے رکھا جو تحریک انصاف کا تھا  لیکن یہ بات سب کو معلوم تھی کہ الیکشن کے بعد دونوں اکٹھے ہو کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دیں گے، سو ایسا ہی ہوا۔ اور انتخابی نتائج سامنے آئے تو پیش گوئیوں کے عین مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے پاس مل کر حکومت تشکیل دینے کے سوا کوئی آپشن ہی باقی نہ رہا۔

لیکن مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت میں اس کے پہلے سال پہلے ہی بجٹ پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ 2008 کے بعد دونوں جماعتوں میں ایک بار پھر باہمی معاہدے اور اس کی خلاف ورزی کی گونج سنائی دی۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی مرکز میں حکومت میں تشکیل کے بعد مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نوازشریف نے ان پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا کہ وہ وعدے کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کو ان کے عہدوں پر بحال کریں کریں جنہیں جنرل پرویزمشرف نے برطرف کیا تھا۔ نون لیگ کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے ان سے اس حوالے سے باقاعدہ معاہدہ کیا تھا۔ اور اب وہ اس کی پاسداری کریں۔

اس بار پیپلزپارٹی نے نون لیگ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے حکومت کی تشکیل کے وقت باہمی تعاون کا جو معاہدہ کیا تھا وہ اس کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو نہ تو بجٹ کی تیاری میں اعتماد میں لیا گیا نہ ہی سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تشکیل میں ان کی سندھ اور بلوچستان حکومتوں کو آن بورڈ لیا گیا جو کہ پی ایس ڈی پی کی تشکیل کے لئے ایک طے شدہ طریق کار ہوتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے موقع پر ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے کو کبھی منظرعام پر نہیں لایا گیا لیکن اس کی بعض جزئیات پیپلزپارٹی کے رہنما بیان کررہے ہیں جس کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ بجٹ سمیت تمام پالیسی امور میں پیپلزپارٹی کی مشاورت شامل رہے گی۔ جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں حکومت پیپلزپارٹی کو اس کا حصہ بقدر جثہ یقینی بنائے گی۔ بالخصوص پنجاب کے حوالے سے پیپلزپارٹی کو دوبارہ پاوں جمانے کا موقع دیا جائے گا۔ اور اس سلسلہ میں یہاں پیپلزپارٹی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ ایسے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کو بھی ترقیاتی سکیموں میں شامل کیا جائے گا جنہوں نے اپنے حلقوں میں خاطر خواہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں انتظامی معاملات میں بھی پیپلزپارٹی کے ارکان اور عہدیداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ خاص طور پر کلیدی عہدوں پر ضلعی اور ڈویژنل افسران کی تقرریوں میں پیپلزپارٹی کی رائے کو بھی اہمیت دی جائے گی۔ لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
یہ تھے وہ معاملات جس کی وجہ سے تین ماہ میں ہی گلے شکووں کا لاوا اس قدر پک گیا کہ پیپلزپارٹی نے حکومتی اتحادی جماعت ہوتے ہوئے بھی پہلے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا لیکن پھر وزیراعظم شہبازشریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی مداخلت پر تین ارکان اسمبلی میں بھیج کر ٹوکن شرکت کرلی تاہم اپنا احتجاج جاری رکھا۔

دوسری طرف مسلم لیگ نون کے اندر بھی اس معاملہ پر ایک بحث چل رہی ہے۔ مسلم لیگ نون جو ماضی میں صدر آصف زرداری کی شدید ناقد رہی ہے وہ اس ایشو پر ان کے گن گا رہی ہے اور صدر زرداری کو اتحاد کے حوالے بہت مثبت قرار دیتی ہے۔ نون لیگ کے ایک اہم رہنما کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی میں صدر زرداری اور بلاول بھٹو الگ الگ پالیسی لے کر چل رہےہیں۔ ان رہنما کا کہنا تھا کہ صدر کو ملکی حالات کی نزاکت کا صحیح معنوں میں ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ بجٹ سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات میں صدر مملکت نے کہا کہ ملک کو اس وقت پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی لانگ ٹرم شراکت داری کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے تمام اختلافات کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔ لیکن بجٹ کے موقع پر پیپلزپارٹی کے شدید ردعمل نے انہیں حیران کردیا۔
یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے ہونے والے مذاکرات میں کھل کر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں پاور شئیرنگ کا مطالبہ تو کرتی ہے لیکن ہم نے بدلے میں سندھ میں اپنی پارٹی کے لئے سیاسی سپیس کی بات کی تو پیپلزپارٹی نے خاموشی اختیار کرلی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج تک سندھ میں پیپلزپارٹی سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ لیکن اب ان سے کہا ہے کہ وہ سندھ میں ہمارے پارٹی عہدیداروں کو حکومتی عہدوں، انتظامی فیصلوں اور ترقیاتی سکیموں میں ایڈجسٹ کریں تو پنجاب میں بھی بات ہوسکتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین طے پانے والے پاور شئیرنگ فارمولے کے تحت گورنر سندھ کا عہدہ نون لیگ کو دیا گیا تھا لیکن نون لیگ نے ابھی تک وہاں اپنی کسی شخصیت کو گورنر سندھ مقرر نہیں کیا اور اس عہدہ پر اپنی اتحادی جماعت ایم کیوایم کے کامران ٹیسوری کو ہی برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ عید کے بعد بجٹ منظوری کے مرحلے سے پہلے ہی اس حوالے سے دونوں جماعتوں میں مثبت پیش رفت کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے لیکن تاحال دونوں جماعتوں میں ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال ہی دیکھنے میں آرہی ہے۔
سن 2008 میں ججز کی بحالی کے حوالے سے نون لیگ ایک معاہدے پر عمل کا پیپلزپارٹی سے مطالبہ کررہی تھی اور آج 2024 میں پیپلزپارٹی اسی مقام پر کھڑی ہے اور نون لیگ کے وزیراعظم سے پاور شئیرنگ کے معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کررہی ہے۔ تاریخ کے ان دونوں مراحل پر ایک قدر مشترک ہے کہ 2008 میں بھی ملک کےصدر آصف زرداری تھے اور آج 2024 میں بھی صدر مملکت آصف زرداری ہی ہیں۔ تب آصف زرداری کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ معاہدے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے۔ جبکہ آج صدر زرداری کی پیپلزپارٹی نون لیگ کے وزیراعظم شہبازشریف سے معاہدے کی پاسداری کا کہہ رہی ہے تو معلوم نہیں نون لیگ کی قیادت کیا جواب دیتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین