Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

ایسے پالیسی ساز کہاں سے آتے ہیں؟

Published

on

گزشتہ ہفتے مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ایک خبر کا بڑا چرچا رہا کسی نے میمز بنائی، کسی نے اعلان کو سراہا تو کسی کی تنقید کا نشانہ! خبر درآصل یہ تھی کہ  بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بیٹے کی پیدائش پردوہزارروپے کی رقم دی جائے گی جبکہ بیٹی کی پیدائش پرڈھائی ہزار روپے دیئے جائیں گے!

اب بات دراصل یہ ہے کہ اعلان کرنے والے تو پریس کانفرنس کر کے چلتے بنے لیکن کیا پالیسی بنانے ،اعلان کرنے اور اس کے نفاذ سے پہلے اس پالیسی کے تحت دی جانے والی مراعات کے نتائج کا کچھ اندازہ بھی لگایا گیا؟ نہ ہی پالیسی کی کوئی منطق سمجھ آئی!

ایک ایسا ترقی پذیر ملک جہاں غریب کے پاس کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور رہنے کو چھت نہیں، وہ آبادی میں مزید اضافہ کرے گا صرف دو، ڈھائی ہزار روپے کی خاطر جس سے شاید نومولود کا ایک دن کا خرچہ بھی پورا نہ ہوسکے!

سرکار کو بتانے کی ضرورت ہے کہ بچے کی طبعیت خراب ہوجائے تو دو، ڈھائی ہزار میں اس کا علاج معالجہ بھی پورا نہیں ہوتا! آبادی بڑھانے والوں کا کیا ہے وہ تو ایکٹویٹی سمجھ کر مفت کے دو ڈھائی ہزار لینے پہنچ جائیں گے!

جس ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس ملک کی سرکار لوگوں کو پیسے دے کر آبادی میں اضافہ کرنے پر لگا رہی ہے! اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی آبادی آٹھ ارب کا ہندسہ عبور کرچکی ہے اور اس وقت دنیا کی کل آبادی کا تقریباً تین فیصد حصہ پاکستان کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اور خیر سے سرکار مزید اضافہ چاہتی ہے!

رپورٹس اور تحقیق کے مطابق پاکستان پہلے ہی دنیا کے ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جو 2050 تک دنیا میں بڑھنے والی کل آبادی میں پچاس فیصد تک حصہ ڈالیں گے

اب ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کا جن  پہلے ہی بے قابو ہو وہاں  ایک بچہ ہو یا دو بچے، پیدائش پر مراعات دینا بھلا کہاں کی حکمت عملی ہے؟

گزشتہ چند دہائیوں میں جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کوایک فیصد سے بھی کم کر کے قدرتی وسائل کو مینج کیا ااور بڑھتی آبادی کے مسائل پر قابو پایا ہے وہاں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.9 فیصد رہی۔

یاد رہے تیزی سے بڑھتی آبادی پاکستان کے لیے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ بحیثیت ریاست پاکستان قدرتی اور معدنی وسائل کو مینج کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کمی کا بھی شکار ہوتا جارہا ہے۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس تیزی سے بڑھتی آبادی کی ضروریات کو مینج کرنے کے لیے سرکار کے پاس وسائل موجود ہوں گے؟

پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی بدانتظامی اورغیر متناسب نمو کا کیس پیش کرتی ہے۔ کل آبادی کا چونسٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ملک ہیومن ریسورس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے! جس کی بنیادی وجہ ایک کے بعد ایک آنے والی نااہل حکومتیں ہیں جو صرف اقتدار کے بھوکے اشرافیہ پر مشتمل ہیں۔ جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو قومی ترقی، فلاح و بہبود اور انسانی ترقی سے بالاتر تررکھا۔

اگر یہ اشرافیہ کی حکومتیں انسانی وسائل سے فائدہ اٹھاتیں تو ملک تمام شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کر سکتا تھا۔ تاہم، ایک روایتی اور منظم طریقے سے نظر اندازکر کے، جاگیردارانہ نظام اور اشرافیہ کی دائمی گرفت مضبوط کر کے، ترقی کے عمل سے سول سوسائٹی کو دور رکھ کراور معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم نہ کر کے آبادی کو ٹائم بم میں تبدیل کردیا گیا۔

یاد رہے کہ ملک کی آبادی کو ٹائم بم میں تبدیل کرنے میں ایک دو عناصر نہیں بلکہ متعدد عوامل کارفرما ہیں۔  حکومتی بے حسی، آبادی کی ناقص منصوبہ بندی، مذہب اور ثقافت کی آڑ میں بے بنیاد رسم و رواج اور ان کی تشریح، شرح پیدائش کے مقابلے میں شرح اموات کا کم ہونا، غربت، ناخواندگی، خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی کا نہ ہونا، تفریحی سرگرمیوں کی کمی، مختلف تنازعات اور نقل مکانی جیسے محرکات نے اپنا کردار ادا کیا۔

سرکار کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک کی آبادی اس کی پوٹینشیل پاور ہوتی ہے جو کہ حقیقی طاقت میں صرف اس ہی وقت بدل سکتی ہے جب کہ آبادی کی شرح میں اضافے کے بجائے آبادی کی شرح خواندگی اور معیارزندگی بہتر بنایا جائے۔

انسانی وسائل کا معیار کسی ملک کی تقدیر اور سمت کا تعین کرتا ہے۔ ملک کی آبادی ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے جو ریاست کا اثاثہ اور طاقت بھی ہوسکتی ہے یا پھر ذمہ داری۔

پیداواری، محنتی، سرشار اور متحرک افرادی قوت پائیدار قومی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے۔ اگرچہ صحت کی جدید سہولیات، دیکھ بھال، طبی ٹیکنالوجی اور خوراک کی پیداوار نے شرح اموات کو کم کیا ہے اور آبادی کی شرح میں اوسط اضافہ کیا ہے، لیکن دنیا بھر کے ممالک اس کی ترقی کو متوازن کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی عملی حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

پاکستان کی آبادی کا بے قابو جن ہر سطح پرعملی طور پر آبادی پر قابو پانے اور انتظامی اقدامات پر زور دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تیزی سے بڑھتی اور زیادہ آبادی کو ایک حقیقی خطرے کے طور پر تسلیم کرنا ایک متوازن اور پیداواری ہیومن ریسورس مینجیمنٹ کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

بچوں کی پیدائش پر مراعات دینے کے بجائے۔ ایک یا دو سے زیادہ بچے ہونے کی صورت میں جرمانہ عائد کرنا بڑھتی آبادی کے مسائل پر قابو پانے کی حکومت کی سنجدیدہ کوششوں کی عکاسی کرے گا۔

ساتھ ہی  خاندانی منصوبہ بندی، بڑھتی آبادی کے لیے جامع منصوبہ بندی، مذہبی اسکالرز کو شامل کرنا اور مذہب کی حقیقت پسندانہ تشریح، شرح خواندگی اور خواتین کی تعلیم میں اضافہ، بچوں کی شادیوں کے رواج کو جانچنا اور روایتی خرافات کو ختم کرنا، بچوں کی محدود پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور انہیں انعام دینا، عوامی مقامات اور تفریحی سرگرمیوں میں اضافہ، میڈیا کے ذریعے آگاہی پھیلانا، خواتین اور نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرنا اور نوجوانوں کو قومی امور میں شامل کرنا ملک میں ایک متوازن اور ہنر مند آبادی کی تعمیر میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔

اب وقت آگیا ہے کہ ملکی قیادت یہ سمجھے کہ صرف ایک محدود، جامع اور اچھی طرح سے منظم آبادی ہی ملک کو پائیدار ترقی اور مساوات کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ریاست کی طاقت بڑھانے کے لیے آبادی کی شرح میں اضافہ نہیں بلکہ ملک کی آبادی کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے!

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین