Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

اگر میں اپنے کام میں مداخلت روک نہ سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہئے، چیف جسٹس

Published

on

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز کے تند و تیز ریمارکس سننے میں آئے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے اس ضمن میں کوئی تجاویز نہ آنے ہر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا یعنی عدالتی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ بھی چار سال تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں انھوں نے تو کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’ان کے ریمارکس کا یہ مطلب نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں لیکن کسی نے بھی ان کے امور میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں کی۔‘

دورانِ سماعت بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’جب وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے تو ان کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مداخلت کہیں نا کہیں ضرور ہوتی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہر جگہ مداخلت ہوتی ہے مناسب نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں روک نہ سکوں تو مُجھے گھر چلے جانا چاہیے۔‘

اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پڑھ کر سنائیں۔ تجاویز میں کہا گیا کہ اگر فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت ختم ہو جاتی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے کے خلاف جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں وہ چار سال تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں دائر کرنے والوں میں آئی ایس آئی کے علاوہ اس وقت کی حکومت اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس فیصلے میں کہا تھا کہ فیض حمید اس کے ذمہ دار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بعد میں تمام نے نظرثانی کی اپیلیں واپس لے لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’فیض آباد دھرنا سے متعلق ذمہ داروں کے تعین سے متعلق ایک کمیشن بنایا حالانکہ وہ خود بھی کرسکتے تھے انھوں نے کہا کہ جب یہ دھرنا ہوا تو اس وقت دنیا کو معلوم تھا کہ پاکستان کو کون چلا رہا تھا۔‘

بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’فیض آباد دھرنے سے متعلق جو تین رکنی کمیشن بنایا گیا تھا اس نے اپنی تجاویز سے اس عدالتی فیصلے کو ہی غیر مؤثر کردیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کمیشن نے قانون سازی کرنے کے بارے میں بھی کہا تھا لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’وہ پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی تو دوسری طاقتیں مضبوط ہو جائیں گی۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن بولنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کوئی جج دباؤ کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہیں ہے تو اس کو جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جو سچ بولتا ہے اُس کے ساتھ وہی ہوتا ہے کہ جو آج اُن چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے جنھوں نے آواز بلند کی۔‘

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین