ٹاپ سٹوریز
کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا علم تھا؟
دو مئی دو ہزار گیارہ کو القاعدہ کے سربراہ اور دنیا کے سب سے خطرناک دہشتگرد قرار پانے والے اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکا کے ایک آپریشن کے دوران مارے گئے، اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے عوام آج تک اس بارے میں حتمی یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کو اس آپریشن کا حتمی اور پیشگی علم تھا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسامہ اپنے آخری دنوں میں کیا کر رہا تھا اور اس کے شب و روز کیسے تھے۔
اسامہ بن لادن کے قتل کے لیے امریکی آپریشن کے متعلق پاکستان کو پیشگی علم تھا یا نہیں؟ ۔ اس کا جواب اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ایک مضمون میں دیا تھا۔
اسامہ آپریشن پر شبہات کیوں پیدا ہوئے؟
لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسامہ آپریشن کے متعلق شکوک کیوں پیدا ہوئے؟ ۔ یہ شکوک پیدا کرنے میں بھی امریکی اور مغربی میڈیا کا ہاتھ تھا۔ امریکا کے ایک پلٹزر ایوارڈ یافتہ ، تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش نے ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ اسامہ بن لادن ، پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی سکیورٹی میں ایبٹ آباد میں مقیم تھے لیکن پھر ایجنسی کے ایک افسر نے انعام کے لالچ میں ساتھ چھوڑ دیا اور انہیں امریکا کے حوالے کرنے میں کردار ادا کیا، سیمور ہرش نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا کی اس چھاپہ مار کارروائی کو اس وقت کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کی بھی درپردہ حمایت حاصل تھی۔
امریکا نے پاکستان کے جرنیلوں کو بلیک میل کیا: امریکی صحافی کا دعویٰ
سیمور ہرش نے یہ بھی لکھا کہ امریکیوں نے پاکستان کے جرنیلوں کو بن لادن آپریشن میں مدد کے لیے "بلیک میل” کیا لیکن پھر سیاسی وجوہات کی بناء پر نیوی سیلز کے چھاپے میں مدد کرنے کا کریڈٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
حسین حقانی نے سیمور ہرش کے جواب میں لکھے گئے مضمون میں موقف اپنایا کہ کسی ایک افسر کی طرف سے انعام کے لالچ میں امریکیوں کو معلومات کی فروخت کے ایک امکان کو چھوڑ کر بات تمام دعوے بے نام ذرائع سے ہیں اور شاید ہرش کو معلوم نہیں کہ پاکستان کیسے کام کرتا ہے۔
سیمور ہرش کے دعوے درست نہیں: حسین حقانی
حسین حقانی کے بقول ہرش نے اسامہ کو تلاش کرنے اور قتل کر نے کے آپریشن کا تنہا کریڈٹ لینے کے لیے اوباما انتظامیہ کی بے تابی کو تو واضح کیا لیکن اس آپریشن میں اپنے کردار کے متعلق پاکستان کے جرنیلوں کی خاموشی کیوں؟ اس سوال کا جواب ہرش نہیں دیتا اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اسامہ کی مقبولیت کی وجہ سے شاید جرنیلوں نے خاموشی بہتر سمجھی۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ دو ہزار گیارہ میں اسامہ اتنا مقبول نہیں تھا جتنا کہ اس سے پہلے کے برسوں میں تھا تب جرنیلوں نے پاکستان کے عوام کے جذبات کو نظرانداز کئے رکھا اس لیے سیمور ہرش کا یہ اندازہ بھی درست نہیں۔حسین حقانی کا کہنا ہے کہ سیمور ہرش کا دعویٰ بھی درست نہیں کہ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکی امداد رکنے کے ڈر سے درپردہ امریکا کی مدد کی ، حسین حقانی اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایس آئی پر برسوں امریکی میڈیا اور کانگریس میں برسوں ڈبل گیم کا الزام لگتا رہا، اگر اسامہ بن لادن کو پانچ سال تک پناہ دینے یا اسے قید رکھنے کا الزام درست ہوتا تو امریکی اسے اپنے فائدے کے لیے اچھالتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔حسین حقانی کے خیال میں سیمور ہرش ایسے ناممکن منظر نامے پر یقین کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
حسین حقانی نے لکھا کہ آج تک اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ پاکستان کی حکومت میں اعلیٰ ترین سطح پر کوئی شخص اسامہ کی پاکستان موجودگی سے باخبر تھا، ہاں اس سے متعلق افواہیں ضرور پھیلتی رہیں۔ اگر کسی فوجی افسر نے امریکا کو انعام کے بدلے مخبری کی تو امریکی آپریشن میں مبینہ مدد کرنے والوں نے کریڈٹ کا تقاضا کیوں نہ کیا تاکہ ماضی میں لگنے والے الزامات دھوئے جا سکیں۔ کیا اسلام آباد کے ساتھ تعلقات واشنگٹن کی اس حد تک مجبوری تھے کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان اور اسامہ کے متعلق جھوٹ بولا؟۔
پاکستان کے سکیورٹی افسر کی امریکا سے ملی بھگت کی حد تک سیمور ہرش کی کہانی کی تصدیق ہوپائی تھی، فرانسیسی خبر ایجنسی نے پاکستان کے دو اعلیٰ افسروں کے حوالے سے تصدیق کی تھی لیکن مخبری کی تصدیق نہیں ہوئی بلکہ اس افسر نے امریکا کو اسامہ کا ٹھکانہ معلوم ہونے کے بعد گراؤنڈ پر مزید دستیاب معلومات فراہم کی تھیں۔
دو مئی 2011، حسین حقانی کو کب اور کیا علم ہوا؟
حسین حقانی کے مطابق وہ امریکا سے براستہ لندن اور دبئی اسلام آباد جا رہے تھے جب ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا۔ انہیں ہیتھرو ائیرپورٹ پر علی الصح اس کی خبر ملی، اسلام آباد سے انہیں واشنگٹن واپسی کی ہدایت ملی اور وہ فوری واپس چل دیئے اور مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے وہ واشنگٹن میں تھے۔
حسین حقانی کا کہنا ہے کہ انہیں اسلام آباد سے واضح ہدایات ملیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امریکی حکومت ، کانگریس اور میڈیا پاکستان کی حکومت، افواج، انٹیلی جنس سروسز پر اسامہ کو ملک میں رہنے کی اجازت کا الزام نہ لگائے کیونکہ ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں 1267 اور 1373 کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ان کے باسز سول اور فوجی دونوں ، فکر مند تھے کہ پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ لیکن جنرل کیانی اور پاشا (جن دونوں نے بعد میں مجھے بطور سفیر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا) کے طرز عمل میں ایبٹ آباد چھاپے میں امریکہ کے ساتھ ان کی ملی بھگت کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔جرنیل اسامہ کی پاکستان میں موجودگی اور بغیر اطلاع امریکا کی چھاپہ مار کارروائی پر شرمندہ تھے۔جرنیلوں نے افغانستان کی جانب سے امریکی ہیلی کاپٹروں کی دراندازی کے جواب میں مغربی سرحدوں پر مناسب راڈار کوریج نہ ہونے کو اپنی کمزوری بتایا۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اسامہ کو چھپانے کے الزامات پر پاکستان کو کسی انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
حسین حقانی کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ جتنے بھی امریکی حکام سے ملے سب نے پاکستان کی خودمختاری پامال کرنے پر معذرت کی اور مطالبہ کیا کہ انہیں اسامہ کے کمپاؤنڈ سے ملنے والے ڈیٹا اور افراد تک رسائی دی جائے، امریکیوں نے ایبٹ آباد میں تباہ ہونے والے اسٹیلتھ ہیلی کاپٹر کا ملبہ بھی واپس کرنے کا مطالبہ کیا جو انہیں کچھ دن بعد دے دیا گیا۔
اسامہ بن لادن کے آخری شب و روز کیسے گزرے؟
حسین حقانی کے بیان کردہ حالات و واقعات سے یہی سمجھ آتا ہے کہ پاکستان کی حکومت، افواج اور انٹیلی جنس اسامہ کی موجودگی سے بھی لا علم تھی اور اس آپریشن میں بھی ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسامہ کے آخری شب و روز کیسے تھے، اس حوالے سے وال اسٹریٹ جرنل میں تیس جولائی دو ہزار اکیس کو ایک سٹوری شائع ہوئی جو ان سوالوں کے جوابات پر کچھ روشنی ڈالتی ہے۔
اس سٹوری کے مصنف پیٹر برجن کے مطابق دو ہزار گیارہ کے ابتدائی ہفتوں میں اسامہ بن لادن پریشان تھے، اسامہ نے پانچ سال تک خود کو، اپنے بڑے خاندان بشمول بیویوں، بچوں اور پوتے پوتیوں کے، ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں چھپائے رکھا لیکن اب انتہائی احتیاط سے بنائی یہ پناہ گاہ بکھرتی نظر آتی تھی۔ اسامہ کے محافظ دو بھائی تھے جو القاعدہ کے رکن اور قریبی علاقے کے رہائشی تھے۔ یہ دونوں اسامہ بن لادن کا ہر کام کرتے تھے ، مقامی مارکیٹ سے سودا سلف لانے سے اسامہ کے ہاتھ سے لکھے طویل خطوط القاعدہ کے دوسرے لیڈروں تک پہنچانے تک ہر کام ان کے ذمہ تھا۔
پیٹر برجن کے مطابق اسامہ کے محافظ اس ملازمت سے جڑے خطرات سے تھک چکے تھے اور اسامہ نے اپنی بیویوں میں سے ایک کے ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ دونوں بھائی اب اکتا چکے ہیں۔ اسامہ نے پندرہ جنوری کو ان دونوں بھائیوں کو ایک خط لکھا، حالانکہ وہ سب اکٹھے رہتے تھے، اسامہ نے دونوں بھائیوں سے التجا کی کہ نئے محافظوں اور ٹھکانے کی تلاش تک وہ انہیں مہلت دیں( کمپاؤنڈ دونوں بھائیوں میں سے ایک کے نام پر رجسٹرڈ تھا) اسامہ نے لکھا کہ وسط جولائی تک ان کے راستے جدا ہو جائیں گے۔
تاہم اسامہ کو نیا ٹھکانہ نہ مل سکا اور وہ اپنے بیٹے خالد، اپنے دو محافظوں اور ان میں سے ایک کی بیوی سمیت مارا گیا۔ امریکی نیوی سیلز نے کمپاؤنڈ سے دس ہارڈ ڈرائیوز میں سے چار لاکھ 70 ہزار کمپیوٹر فائلز، پانچ کمپیوٹر اور ایک ہزار تھمب ڈرائیوز اور ڈسکس برآمد کیں۔
پیٹر برجن کے مطابق اسامہ کو سمجھنے کے لیے ان دستاویزات سے زیادہ بہتر کچھ نہیں۔ امریکا نے یہ تمام فائلز دو ہزار سترہ کے آخر میں جاری کیں اور وہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
اسامہ فائلز میں اسامہ کی دو بیٹیوں کے ہاتھ کی لکھی ایک ڈائری ہے جس میں اسامہ کے آخری دنوں کا احوال ملتا ہے۔
عرب اسپرنگ سے متعلق پریشانی
اسامہ بن لادن 2011 ء کے اوائل میں، اپنے مارے جانے سے چند ہفتے پہلے، بہت پریشان اور متفکر تھے، انہیں لگتا تھا تاریخ انہیں نظرانداز کر کے گزر رہی ہے، وہ وہ واقعات جن کے بارے میں اسامہ کا خیال تھا کہ صدیوں میں اہم ترین ہیں لیکن ان کا ذکر کہیں نہیں، یہ واقعات تھے مصر اور لیبیا میں احتجاج کے، احتجاج کرنے والے لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر بنیادی حقوق کا منطالبہ کر رہے تھے لیکن اس کے لیے القاعدہ کا جھنڈا استعمال ہو رہا تھا نہ ان مظ اہرین کے نعروں میں کہیں جہاد کی پکار تھی۔ اسامہ بن لان پریشان تھے کہ اس پر ان کا ردعمل کیا ہو۔
اسامہ کی بیوی ام حمزہ انہی دنوں ایران کی نظر بندی سے رہا ہو کر ان کے پاس پہنچی تھیں، اسامہ ام حمزہ کو ایک ہم مرتبہ دانشور سمجھتے تھے ، جو پی ایچ ڈی تھیں، بچوں کی نفسیات اور قرآن کا علم رکھتی تھیں ۔ اسامہ کا خیال تھا کہ ام حمزہ ان کی پریشانی کا حل اور سوالوں کا جواب دے سکتی ہیں کہ عرب اسپرنگ کے تمام احتجاج اور بغاوتیں لبرل طبقے کی طرف سے کیوں تھیں اور وہ اس تحریک کے رہنما کے طور پر خود کو کس طرح پیش کر سکتے ہیں ۔
بن لادن ایبٹآباد کمپآنڈ کے احاطے میں روزانہ فیملی کے ساتھ میٹنگز کرتے تھے اور عرب اسپرنگ پر بات کرتے تھے۔ ان مشوروں میں ام حمزہ کے علاوہ ان کی ایک اور بیوی ام سہام بھی شریک ہوتی تھیں جو پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ایک شاعر اور دانشور بھی تھیں۔
اسامہ کی ان میٹنگز کے نوٹس ان کی دو بیٹیاں لیتی تھیں، اسی طرح کی ایک میٹنگ میں خاندان کے ایک فرد نے پوچھا کہ ان بغاوتوں میں القاعدہ کا ذکر کیوں نہیں ہو رہا؟ تو اسامہ نے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تجزیہ کار القاعدہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح کی میٹنگ میں خاندان کے ایک فرد نے پوچھا کہ اسامہ نے 2014 ءمیں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں عرب عوام سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کریں ۔ اس بیان کا اثر کیوں نظر نہیں آیا؟ ۔ اس پر ام حمزہ نے کہا تھا کہ شاید یہ بغاوتیں اسی بیان کی بنیاد پر ہیں لیکن ام حمزہ سمیت سب جانتے تھے کہ اس جواب کی حقیقت کیا ہے۔
مارچ 2011 ء میں اسامہ نے اپنے خاندان سے سوال کیا کہ دو پہر میں جو خبر وہ دیکھ اور سن رہے تھے اس پر ان کا تبصرہ کیا ہے ؟ بن لادن کے خاندان کے افراد نے کہا کہ ان کے خیال میں ان بغاوتوں کی کامیابی کے لیے اسامہ کو ایک بیان جاری کرنا چاہئے۔ ان کے خاندان کو یقین تھا کہ اسامہ کا ایک بیان عرب اسپرنگ کی رفتار کو تیز کر سکتا ہے۔
مسلم دنیا سے معذرت پر غور
اسامہ بن لادن نے القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ہزاروں مسلمانوں کے قتل پر معذرت کا ایک پیغام جاری کرنے پر بھی سوچا تھا، اسامہ کے خیال میں القاعدہ سے منسلک، القاعدہ عراق، صومالیہ کی الشہاب اور تحریک طالبان پاکستان نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل کیا جس سے القاعدہ کی شہرت داغ دار ہوئی اور القاعدہ کے کارنامے دب کر رہ گئے اور یہ تصور کی القاعدہ ایک مقدس جنگ لڑ رہی ہے ، تباہ ہو گیا۔
اسامہ نے اپنے ایک کمانڈر کو لکھا کہ وہ ایسا بیان جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں جس میں اپنی غلطیوں کو درست کرنے پر بات کریں گے۔ اور یہ واضح کریں گے کہ القاعدہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو قتل نہیں کرتی۔اسامہ نے القاعدہ کو نیا نام دینے کا بھی سوچا تھا، ایسی تنظیم جس کا تصور ایک مہربان کا سا ہو۔
اسامہ کی طرف سے القاعدہ کی ری برینڈنگ یا نیا نام رکھنے کی طرف پیشرفت نہیں ہو سکی تھی، اسامہ نائن الیون کی برسی پر ایک اور بڑا حملہ کرنے کے لیے بھی بے چین تھے، انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو لکھا تھا باراک اوباما کا قتل ان کی اولین ترجیح ہے لیکن افغانستان میں امریکی کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس بھی ان کی نظروں میں تھے۔
پاک فوج اسامہ کی دشمن
بن لادن کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی ہزاروں دستاویزات سے کوئی ثبوت ایسا نہیں ملتا کہ پاکستان کے حکام نے اسامہ کو تحفظ فراہم کیا ہو یا وہ ان کے ساتھ رابطے میں ہوں، اس کے برعکس اسامہ کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی دستاویزار پاک فوج کو مرتد بتاتی ہیں اور القاعدہ پر پاک فوج کے شدید دباؤ کا ماتم کرتی نظر آتی ہیں۔ ان دستاویزات میں پاک فوج پر حملوں کا بھی ذکر ہے۔
اسامہ اور القاعدہ کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کے شواہد ان دستاویزات میں موجود ہیں اور جو افغان طالبان کے خیر خوا اور اعتذار پسند حلقے یہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان نے القاعدہ سے تعلقات توڑ لیے تھے وہ درست نہیں ۔
ایبٹ آباد کی دستاویزات واضح کرتی ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کا اپنے اتحاد کو توڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ درحقیقت، القاعدہ نے طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے اور ان کے ساتھ فوجی آپریشن اور فنڈنگ میں تعاون کیا۔ دستاویزات کے مطابق، بن لادن کے گروپ نے پاکستان میں ایک افغان سفارت کار کو اغوا کیا، اسے پچاس لاکھ ڈالر تاوان کے عوض رہا کیا اور پھر 2010 میں، اس رقم کا بڑا حصہ حقانی نیٹ ورک کو ادا کیا۔
دستاویزات سے ایرانی حکومت اور القاعدہ کے درمیان گہرا عدم اعتماد نظر آتا ہے۔القاعدہ کے ایک رہنما نے اسامہ کو خط لکھا تھا جو ایبٹ آباد کمپاؤنڈ سے ملا، اس کے مطابق سیاہ لباس میں ملبوس اور ماسک پہنے ہوئے ایرانی اسپیشل فورسز نے ایران میں اس حراستی مرکز پر دھاوا بول دیا جہاں بن لادن کے خاندان کے کچھ افراد اور القاعدہ رہنماؤں کو 5 مارچ 2010 کو رکھا گیا تھا۔ فوجیوں نے قیدیوں کو مارا پیٹا جن میں بن لادن کے گروپ کے ارکان بھی شامل تھے۔ اسی دوران بن لادن نے ایک قریبی معتمد اور نائب نے لکھا کہ ایرانیوں پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
تادم مرگ لیڈر لیکن اپنے ہی پروپیگنڈا کا شکار
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد میڈیا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال تھا کہ اسامہ کہیں کسی غار میں چھپ کر زندگی گزار رہا ہوگا اور القاعدہ کے بکھرے ہوئے کمانڈر اس کے نام پر القاعدہ کو چلا رہے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا، دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسامہ تادم مرگ سرگرم لیڈر تھا جس کے احکامات کی تعمیل ہوتی تھی اور وہ سٹرٹیجک منصوبہ بندی میں شامل تھا۔
اسامہ بن لادن مشرق وسطیٰ اور افریقا میں اپنے پیروکاروں کو سٹرٹیجک مشاورت فراہم کر رہا تھا۔ 2010 ء میں القاعدہ جزیرہ نما عرب نے ایک یمنی نژاد امریکی عالم انور العولقی کو سربراہ نامزد کیا لیکن بن لادن نے اس تقرری کو مسترد کر دیا تھا۔ سات اگست 2010 ء کے لکھے ایک خط میں بن لادن نے صومالی دہشتگرد گروہ الشباب پر زور دیا کہ وہ عوام کے سامنے خود کو القاعدہ کا حصہ نہ ظاہر کریں اور گروپ نے اس کی تعمیل کی۔
اسامہ تادم مرگ لیڈر ضرور تھا لیکن اپنے ہی پروپیگنڈا کا شکار اور سٹرٹیجک ناکامیوں سے لاعلم بھی تھا۔ اسامہ نے امریکا کو کاغذی شیر قرار دیا تھا اور اس کے خیال میں نائن الیون کے بعد امریکا مشرق وسطیٰ سے نکل جائے گا اور اس کی کلائنٹ ریاستیں، بشمول سعودی عرب، گر جائیں گی۔
اسامہ نے جو سوچا اور منصوبہ بنایا تھا سب کچھ اس کے الٹ ہوا، امریکا نے نائن الیون کے بعد سات مسلم ملکوں میں جہادی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کیں، جن میں افغانستان، عراق، پاکستان، شام ، صومالیہ یمن اورلیبیا شامل ہیں ۔ یہ جنگیں امریکا کو مہنگی ضرور پڑیں لیکن جس پسپائی کی توقع اسامہ کو تھی ویسا بالکل بھی نہیں ہوا۔اس کے برعکس امریکا کے فوجی اڈوں کا جال مزید وسیع ہوگیا اور القاعدہ نے اپنا اڈہ افغانستان کھو دیا۔
اسامہ بن لادن ان چند شخصیات میں سے ایک تھے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا، لیکن نتائج وہ نہیں تھے جس کی انہیں امید تھی۔ 2011 میں، جیسے ہی 9/11 کی دسویں برسی قریب آ رہی تھی، اس کا غالب ہدف امریکہ کے خلاف ایک اور شاندار دہشت گردانہ حملہ کرنا تھا، وہ یہ جانتے ہوئے مر گیا کہ وہ ناکام ہو گیا تھا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین9 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
دنیا2 سال ago
آسٹریلیا:95 سالہ خاتون پر ٹیزر گن کا استعمال، کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی، عوام میں اشتعال
-
پاکستان9 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز2 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
تازہ ترین10 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور