Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟

Published

on

آپ لوگ اکثر سنتے ہوں گے کہ گوگل میں ایک انڈین شہری کسی ملٹین نیشنل کمپنی کا سی ای او لگ گیا ہے،ایپل، ایمازون،مائیکروسافٹ جیسی ملٹی نیشنل کمپنینوں میں انڈین لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اسی طرح کوئی پاکستانی شخص جرمنی میں ایک بہت بڑی کمپنی میں سی ای او لگ گیاہے، یہ تمام وہ باتیں ہیں جوآپ اکثر اپنے ارد گرد لوگوں سے سنتے ہوں گے، لیکن آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہے کہ یہ جو بڑی بڑی کمپنیان ہیں ان میں جب ہمارے ملک کا،ہمارے خطے کا، کوئی بندہ تعینات ہوتا ہے تو ہم سب لوگ بہت خوشیاں مناتے ہیں لیکن ہم میں سے کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہم لوگ ان بڑی کمپنیوں میں اپنے ملک کے لوگوں کو بڑی نوکری ملنے پر تو اتنی خوشیاں منتے ہیں لیکن پاکستانی اور انڈین دونوں ہی خود اس قابل کیوں نہیں ہوتے کہ بین الاقوامی سطح پر گوگل کے لیول کی یا ایمازون کے لیول کی کمپنیاں خود کھولیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی جوکہ یورپی دنیا کے پاس ہے وہ  ٹیکنالوجیز ہمارے ہے ہی نہیں۔

اج ہم آپ کو یہی اہم بات بتائیں گے کہ ایسا کیوں ہے کہ مغربی دنیا پاک و ہند سے بہت آگے نکل چکے ہیں،اسی اہم ترین سوال پر آج بات کریں گے۔

ایک اہم بات یہ ہےکہ جنوبی ایشیا کے لوگ اکثر یہ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ گوگل کا سی ای او انڈین نژاد ہے، ایپل کا کوئی بڑا عہدیدار لگ گیا ہے جو پاکستان کی فلاں یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہے، اب بنیادی وجہ کیا ہے کہ ہمارے لوگ ان ممالک میں جا کر وہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں میں نوکریاں تو کرتے ہیں لیکن آج تک ہمارے پورے خطے برصغیر میں اس قسم کی کمپنیاں کیوں نہیں بنائی گئیں، گوگل کا سی ای او تو انڈیا کا شہری لگ گیا پر گوگل انڈیا میں کسی نے کیوں نہیں بنایا،؟ٹویٹر جیسی ایپ پاکستان میں کیوں نہیں کسی نے بنائی بنائی،ایلون مسک نے اگر ٹیسلا بنائی آئی ہےاور اس پر جوکام ہو رہا ہے اس قسم کا کام پاکستان میں رہتا کوئی شخص کیوں نہیں کر سکتا؟

ان میں سے بہت سے کام ایسے بھی ہیں کہ جن پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، اب ایپل کمپنی کے بانی سٹیو جابز کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح وہ ایک گیراج میں بیٹھ کر تجربے کرتے رہےاور پھر ایک دن انہوں نے ایپل کمپنی کو اس کی موجودہ حالت تک پہنچا دیا۔

اسی طرح مائیکروسافٹ ونڈوز کو دیکھ لیں کہ ان کے بانی بل گیٹس نے کتنی محنت کی اور اپنی کمپنی کو بین الاقوامی سطح پر منوایا۔جیف بیزوز نے ایمازون کہاں سے شروع کی اور اپنی کمپنی کو کہاں پر پہنچا دیا، اس طرح کی کمپنیوں میں ہم جیسے لوگ جا کر لگ بھی جاتے ہیں لیکن میرا آج کا سوال یہی ہے کہ ہم لوگ اس قسم کی کمپنیاں کیوں نہیں بنا پاتے۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم ذہن کو ایک مخصوص حد سے آگے نکل کر سوچنے نہیں دیتا ، ہمارے سسٹم نے فرد پر ایک حد مقرر کر دی ہے کہ انسان کا ذہن اس حد سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتا،چاہے آپ پی ایچ ڈی کر لیں،  کوئی بھی فیلڈ ہو،ہمارا سسٹم  ہمیں کھل کر سوچنے کی صلاحیت کے لیے مواقف ہی نہیں۔

اگر مغربی معاشرے جیسے کہ امریکہ، جہاں بڑی بڑی کمپنیاں ہیں، جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں وہ بھی اسی قسم کے سسٹم پر چل رہے ہوتے جس پر ہمارے  جیسے تیسری دنیا کے ملک چل رہے ہیں تو وہ بھی آج ہماری طرح دوسرے ممالک کے محتاج ہوتے، لیکن اس کے برعکس یہ معاشرے اپنے لوگوں کو آزادی دیتے ہیں کہ جیسا مرضی سوچو، جس مرضی چیز پر ڈیپیٹ کرو،جس چیزکو کوئی بندہ ایجاد کرنا چاہتا ہے تو ارد گرد کے لوگ انہیں سپورٹ کرتے ہیں ،جبکہ یہاں تو گھر والے ہی بچے پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں کہ یہ بات یہ کرو، وہ کام نہ کرو، یہ نہ پڑھو، وہ پڑھو، اس وقت پر اٹھو، یہ کرو، وہ نہ کرو۔

اسی قسم کی الجھن میں بچہ مبتلا رہتا ہےاور بعد میں اسے یہ ٹینشن لاحق رہتی ہے کہ میں نے اپنا روزگار کس طرح پورا کرنا ہے؟، جبکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں ہمارے مذہب میں  یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ جو ہمارے حصے کا رزق ہے وہ ہمیں مل کر ہی رہے گا لیکن اس کے باوجود بھی ہمارا سسٹم جس میں ہمارے ماں باپ آتے ہیں ، اساتذہ آتے ہیں ہمارا حلقہ احباب اور اسی طرح ہمارا سیاسی نظام اور ایک پورے معاشرے کا کردار آتا ہےجو کہ ایک انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہماری سوچ ہی اس حد سے زیاد ہ تجاوز نہیں کرتی  کہ ہم اس تمام نظام سے اور یہ جو پریشانیوں کا ایک جال ہم پر بچھا دیا گیا ہے اس سے باہر نکل کر سوچیں اور کچھ ایجاد کر سکیں ، اور گوگل جیسی کمپنی پاکستان میں بھی بنائی جا سکے۔

آپ  سٹیو جابز، ایلون مسک، بل گیٹس اور اسی طرح اور بڑے اہم ترین لوگ جن کو دنیا جانتی ہے ان سب کی بائیوگرافی پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ لوگ اپنے اردد گرد سے بے پرواہ ہو کر اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتے رہے دن رات محنت کرتے رہے ، اور اب جا کر دنیا انہیں فالو کر رہی ہے، جیسے کہ ایک انٹر نیٹ ہے جس نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے وہ کس نے ایچاد کیا اور کس ملک نے ایچاد کیا۔ آج ہمیں کوئی بھی مسئلہ ہو ہم فورآ گوگل کا سہارا لیتے ہیں کوئی چیز کی تفصیلات پتہ کرنی ہوں، کسی جگہ جانا ہوں، یا کوئی نیا طریقہ کار اپنانا ہو، اس کے لیے آج ہم لوگ گوگل کا سہارا لیتے ہیں اس جیسی ایپ یا سافٹ ویئر بنانے میں اس شخص کا توکردار تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ کا کیا کردار تھا یا  اسکے ارد گرد کے لوگوں کاکیا کردار تھا؟ جہاں پر بل گیٹس نے یہ ایپ بنائی اور پوری دنیا اس سے مستفید ہو رہی ہے، لیکن ہمارے پورے خطے کے جو لوگ ہیں وہاں پر آپ کو کوئی بھی ایسی چیز ایجاد ہوتی ہوئی نظر نہیں آئے گی کیونکہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان کو اس بات کی ٹینشن ہے کہ روزگار کمانا ہے، شادی کرانی ہے،پہلے یہ یہ چیزیں ہیں ان کو پورا کرنا ہے، تبھی رشتہ اچھا ملے گا، گھر کس طرح چلے گا؟ ایک شحص کے ذہن میں  اسی قسم کے تمام تحفظات بھر دیے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے این او سی کلچر پر چل رہے ہیں، اور یہ این او سی کلچر ہمارے معاشرے میں گھر سے ہی شروع ہو جاتا ہے، کہ آپ نے کچھ بھی کرنا ہے ، اسکی اجازت پہلے آپ نے اپنے گھر والوں سے لینی ہے، کہ آپ نے کیا کرنا ہے ؟ کس طرح کرنا ہے؟ کیوں کرنا ہے؟ کیا پڑھنا ہے؟ کونسے مضامین پڑھنے ہیں یہ باتیں وہ ہیں کہ جن میں کبھی بھی بچے کی رضامندی نہیں پوچھی جاتی، اگر ایک بچہ انجنیئر بننا چاہتا ہے لیکن اس کے گھر والے اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو وہ ساری زندگی اپنی خواہشات کے برعکس  ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرتا رہتا ہے،یہ چیز اس نوجوان پر، اس شخص پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی فیلڈ میں چلا جائے اس کا ذہن اس قدر محدود ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنی حد سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں پاتا، وہ معاشرے سے مذہب سے ، سیاست سے، روایت سے باہر نکل ہی نہیں پاتا،کہ اور چیزیں کیا ہے، کیا کیا مشاہدہ کرنا ہے، کیا کیا تحقیق کرنی ہے،ان سب سے وہ باہر ہی نہیں نکل سکتا۔

 آج ہم لوگ سوشل میڈیا پر ان لوگوں کو سرچ کرتے ہیں جنہوں نے یہ چیزیں ایجاد کی ہیں یا پھر ان لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کی باتیں کرتے ہیں جو ان کمپنیوں میں نوکری کر رہے ہیں اور اس پر ہی اتنا فخر محسوس کرتے ہیں یہ ہمارے ملک سے ہے یا انڈیا سے ہے، یا ہمارے کسی اور خطے سے ہیں، اب بات یہ ہے کہ یہ جو لوگ ان بین الاقوامی کمپنیوں ممیں نوکریاں کر ررہے ہیں ان کی قابلیت  تو ہے لیکن ایک غیر یقینی اورعدم اعتماد کی وجہ سے یہ تمام لوگ اوراسی طرح کے کئی ایسے لوگ جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں آگے اسی وجہ سے نہیں نکل سکے کہ انہیں زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں ایک خوف کا سامنا رہا ہے، اب وہ خوف چاہے کوئی معاشی ہو، کوئی سیاسی ہو، یا کوئی ذاتی عدم اعتمادی ہو ذہنی عدم اعتمادی ہو وہ آپ کو آگے نہیں بڑھنے دیتی آپ اسی کے ارد گرد الجھے رہتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے، ذاتی روابط میں اگر دیکھا جائے تو عدم اعتمادی ہو ایک دوسرے کی بات پر یقین نہ ہو تو وہ رشتہ کامیاب نہیں رہ سکتا بلکہ پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے، اور اسکی وجہ سے آپ کی خود کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اگر آپ کی ریاست غیرمحفوظ ہو، آپ کی ریاست میں ہر چیز میں سیکیورٹی ہو، کہ پتہ نہیں ملک میں کیا ہونے لگا ہے، یہاں پاکستان میں اگر کوئی ٹورسٹ ہی آجائے تو اس سے بھی اتنی دستاویزات سائن کروائی جاتی ہیں کہ وہ خود پریشان ہو کر بھاگ جاتے ہیں۔

اس کے برعکس آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملکوں میں چلے جائیں تو وہاں کوئی سکیورٹی مسائل نہیں ہوتے، کوئی دستاویزات نہیں ہوتے، آپ پورے یورپ میں جائیں گاڑی پر ہی پورا یورپ پھر لیں لیکن کوئی بھی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ کہاں سے ہیں اور ہمارے ملک میں  کیوں پھر رہے ہیں، اس کی ایک وجہ میرے مطابق یہ ہے کہ اُن ممالک میں ہر ایک کو اپنی زندگی اپنے مطابق گزارنے کی آزادی ہے، اور وہاں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، ہر بندہ اپنے اندر نکجھار پیدا کر رہا ہے، مختلف تحقیقات کر رہا ہے، نت نئی ایجادات کر رہا ہے۔

میرے ذہن میں اکثر یہ سوال گردش کرتا ہے کہ ہم لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ نوکریاں تو کر لیتے ہیں لیکن ہم لوگ اس قابل کیوں نہیں ہوتے کہ  ہم لوگ اپنے ملک میں اس قسم کی کمپنیاں بنائیں اور باقیوں کے لیے رول ماڈل بنیں، اور اسکی سب سے بڑی وجہ بھی میرے مطابق یہی ہے کہ ہم لوگوں نے  اپنے معیار گرا کر اپنے اوپر ایسی پابندیاں عائد کر لی ہیں اور ہم لوگ اپنے ارد گرد کے سسٹم میں اس قدر جکڑ چکے ہیں کہ روایتی نوکری سے نکل کر اور کسی کی غلامی سے نکل کر کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں،ہم نے خودسے ایک خاکہ بنا لیا ہے کہ یہ ایک خاکہ ہے اور اس خاکے سے باہر نہیں نکلنا جبکہ دنیا میں وہ قومیں اور وہ لوگ جنہیں دنیا فالو کرتی ہے اور وہ لوگ جو زندگی میں بڑے کام کرتے ہیں وہ تمام افراد عام لوگوں کی طرح روایتی زندگی نہیں ۔ اگر آپ ان کی شخصیت کا جائزہ لیں ان لوگوں پر ذرا تحقیق کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ان لوگوں کے طرز زندگی عام لوگوں جیسے روایتی نہیں ہوتے بلکہ سب سے ہٹ کر ہوتے ہیں، اور اسی وجہ سے ان لوگوں کو اس میں کامیابی بھی ملتی ہے،اس کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عام شخص کو جو ذہنی غیر یقینی ہے وہ ڈال دی جاتی ہے کہ اگر یہ نہ کیا تو یہ ہو گا، ایک معیار ترتیب دے دیتا ہے کہ بس یہی میرا سرکل ہے میں اس سے نہیں ہٹ سکتا،اب ایک شخص اپنے کام میں خوش بالکل بھی نہیں لیکن وہ پھر بھی نا چاہتے ہوئے بھی وہی کام، وہی نوکری، وہی زندگی جیے گا جس سے وہ خود بھی مطمئن نہیں۔

10 سال سے زائد عرصے پر محیط صحافتی تجربے کے حامل اطہر کاظمی بین الاقوامی میڈیا سمیت پاکستان کے مختلف چینلز میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور آج کل 'سنو ٹی وی' سے منسلک ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین