Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

الیکشن التوا سیاستدانوں کے مفاد میں نہیں

Published

on

قومی اسمبلی کی پانچ برس کی معیاد کو مکمل ہونے میں اب دو ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے لیکن پھر بھی عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ایک غیر صورت حال ہے کہ کیا انتخابات وقت پر ہوں گے؟ اور اگر نہیں تو پھر انہیں کتنی دیر کیلئے موخر کیا جائے گا؟

یہ وہ سوال ہیں جو مختلف حلقوں میں گردش کر رہے ہیں اور ایک گومگو کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے. قومی اسمبلی کی معیاد اس برس 13 اگست کو ختم ہوگی اور آئین کے تحت معیاد مکمل ہونے پر نوے دنوں یعنی 13 اکتوبر سے پہلے انتخابات کرانے ہیں.  یہ ایک آئینی ذمہ داری ہے. اس قانونی حقیقت کے برعکس خود حکمران جماعت کے ارکان عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں مختلف نوعیت کے بیانات دے رہے اور ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جس سے صورت غیر یقینی کی سمت بڑھ رہی ہے۔

حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ ملک میں انتشار کی صورت حال کی وجہ سے انتخابات وقت نہ ہونے کا خدشہ ہے اور یہ صورت حال بھی حزب اختلاف کی  سیاسی جماعت تحریک انصاف کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے. دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے اس بیان کی بازگشت سنی گئی کہ مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت میں عام انتخابات کم از کم چھ ماہ کیلئے موخر کئے جاسکتے ہیں. مسلم لیگ نون کے ایک رہنما خرم دستگیر نے نومبر 2023 میں انتخابات کا عندیہ دیا ہے۔

شائد انہی بیانات  کی وجہ سے وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی نے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے جلسے میں خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی عام انتخابات کے لیے  تیار ہے اور  اپنے اتحادیوں کو بھی یہ کہتی  ہے کہ آئیں ہمت پکڑیں،  میدان میں آئیں، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لیے تیاری کرنی چاہیے.  آخر بلاول بھٹو زرداری کو یہ بات کہنی کی ضرورت کیوں پیش آئی. اس کا جواب یا وضاحت پیپلز پارٹی خود یا پھر مسلم لیگ نون میں سے کوئی ایک یا دونوں دے سکتے ہیں۔

کچھ تجزیہ نگاروں کی پیش گوئی ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر نہیں ہو رہے. کچھ کے مطابق ایک برس اور کچھ کو تو دو برس تک انتخابات کا انعقاد نظر نہیں آرہا. انتخابات کے بارے میں یہ وہ باتیں ہیں جو پہلی بار نہیں ہو رہی اور پہلے بھی اس طرح کی باتیں پہلے بھی عام انتخابات کے ملتوی ہونے کے بارے میں سننے کو ملی ہیں۔

ویسے تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے پر نوے دن انتخابات کرانے کا اعلان کیا کہ انہوں نے تین مرتبہ انتخابات کی تاریخ دیکر اُس تاریخ پر انتخابات نہیں کرائے. جنرل ضیاء الحق نے اپنی ہلاکت سے اڑھائی ماہ پہلے محمد خان جونیجو کی اسمبلی تحلیل کی تھی اور نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن ان کی ہلاکت کے بعد انتخابات کا انعقاد ایک مرتبہ ملتوی ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔

1996 میں جب صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا تو اُس وقت بھی اس بات کا خوب چرچا رہا کہ عام انتخابات اب دو برس تک ہوتے نظر نہیں آ رہے لیکن یہ پیش گوئیاں، اندازے اور تجزیہ بھی درست ثابت نہیں ہوئے. اس کی بنیادی وجہ ہے سیاسی جماعتیں پارلیمانی سیاست کے بغیر ادھوری ہیں۔

انتخابی سیاست یا انتخابات سے دور رہنا کسی سیاست جماعت کیلئے ایک مشکل ترین فیصلہ ہوتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ سیاسی جماعتیں اس کے فیصلے کی متحمل نہیں ہو سکتی. ماضی میں 1985 میں جب جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے تو اُس وقت  پیپلز پارٹی نے ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن بعد میں پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو ایک غلطی قرار دیا.  ایم کیو ایم نے 1993 کے انتخابات  کا بائیکاٹ کیا لیکن اپنی غلطی احساس ہوا اور دو دن کے بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا  اور اکثریت سے کامیاب حاصل کی۔

 بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نون نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اشارہ دیا لیکن آصف علی زرداری نے نواز شریف کو قائل کیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں اور اسی موقف پر نواز شریف نے انتخابات حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور پہلا جلسہ فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں کیا۔

اب یہ سوال ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو رہی ہے ایسے میں حکمران کو برملا اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات اپنے مقرر وقت میں ہی ہونگے اور آئین میں معین وقت سے کسی طور بھی آگے نہیں ہونگے۔

یہ بات تو طے ہے کہ انتخابات کا نہ ہونا کسی صورت میں سیاسی جماعتوں کے حق نہیں ہے. چاہے سیاسی جماعت کو انتخابات میں شکست کا سامنا کیوں ہو. انتخابات سے بھاگ نہیں جاسکتا.  2002 میں پیپلز پارٹی کو خطرہ تھا کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے اسی وجہ سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین قائم کی گئی جس کے سربراہ بینظیر بھٹو کی جگہ مخدوم امین فہیم کو بنایا گیا۔

عام انتخابات کے انعقاد پرغیریقینی صورتحال کی ایک وجہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں 60 دن میں انتخابات نہ ہونے کو بھی جواز بنایا جا رہا ہے اور یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے 60 دنوں میں انتخابات ہونے تھے لیکن نہیں ہوئے اور نگران حکومتیں اب بھی اپنا قائم ہیں۔ اگر قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد بھی اس طرز پر نگران وفاقی حکومت قائم ہوگی تو وہ بھی کام کرسکتی ہے. جیسے غیر جمہوری ادوار میں ہوتا رہا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر کابینہ کام کرتی ہیں البتہ اس مرتبہ  نگران وزرا کا اضافہ ہوا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے جب  جونیجو حکومت کو تحلیل کیا تھا تو اُس وقت بھی نگران وزیر اعظم مقرر نہیں کیا گیا تھا۔

کچھ عرصہ پہلے ایمرجنسی کے نفاذ کے ذریعے اسمبلی کی معیاد میں اضافے کا بہت چرچا ہوا. حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے یہ بیان داغے  کہ آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت اندرونی خلفشار کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی معیاد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے. اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر بلاول بھٹو زرداری تو خود حکومت کا حصہ ہیں تو پھر انتخابات کی تیاری کے بارے میں بیان دینے ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

عام انتخابات میں تاخیر یا ان کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سیاسی جماعتوں کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا. اس لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اس بارے میں اپنا پالیسی بیان دیں اور اس مقصد کیلئے پارلیمان سے بہتر کوئی فورم نہیں ہوسکتا جہاں یہ یہ اعلان کیا جائے کہ ہر صورت میں انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی اکتوبر میں ہی ہونگے اور کسی  تاخیر یا التوا کا رتی بھر امکان نہیں ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین