Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

ایک نیا عدالتی بحران؟

Published

on

انتخابات قریب ہیں ایسے میں اداروں کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہے ۔خاص طور پر عدلیہ کا مستحکم ہونا تو ناگزیر ہے۔ یہ عدلیہ ہی ہے جس نےملک کو کئی بار بحرانوں سے نکالا اور اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے  چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے آنے کے بعد عدلیہ اپنی اصلاحات بھی کر رہی ہے ۔سو موٹونوٹس کا معاملہ ہو یا ریویوججمنٹ ایکٹ ہو یا پھر بھٹو قتل کیس کا ریفرنس ، سپریم کورٹ نے اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کی ہے اور جاری رکھے ہوئے ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدلیہ میں تقسیم کو کافی حدتک کم کرنے کی بھی کوشش کی ۔اِس سے پہلے سابق چیف جسٹس کے دورمیں اختلافی نوٹس کی بھرمار نے عدلیہ میں واضح تقسیم کی نشاندہی کی۔

      سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس پر کارروائی اور پھر سپریم کورٹ کے دو سینئیر جج صاحبان کے استعفوں نے ماحول کو گرما دیا ہے اب  ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایک بار پھر عدلیہ میں نیا بحران سر اُٹھا رہا ہے ۔ایک کے بعد ایک  جج صاحبان کا استعفی آنا کوئی اچھا شگون نہیں ۔اس سے عدلیہ مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوگی ۔ اگر عدلیہ کمزور ہوگی توپھر چیف جسٹس بھی مضبوط نہیں ہوسکیں گے ۔پہلے جسٹس مظاہر نقوی اور پھر مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کا ایک دن کے وقفے کےساتھ استعفی آنا یقینی طور پر حیران کن تھا ۔

جسٹس مظاہر نقوی کا استعفی دینا سمجھ میں اِس لیے بھی آتا ہے کہ اُن کیخلاف کرپشن کے الزامات تھے۔اُن کی اور سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی کی ایک مبینہ آڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں ایسا تاثر جارہا تھاکہ پرویز الہٰی نے اُن سے کوئی ذاتی فائدے لیے ہیں ۔یعنی اُن پر مس کنڈیکٹ کاالزام لگا گو کہ سابق چیف جسٹس نے اُنہیں اِس معاملے پر کلین چٹ دی لیکن وہ متنازع ہوگئے. اِن کیخلاف کرپشن کی شکایت بھی سامنے آئی اورمعاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا گیا ۔عام تاثر یہی تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر اُن کے کرپشن کے معاملات  آگے بڑھے تو اُن کوسُبکی اُٹھانا پڑسکتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اپنی مراعات اوراپنی پینشن اور رہی سہی ساکھ کو بچانے کیلئے استعفی دیا تو اِن کا ایساکرنا قابل فہم ہے  ۔

جب کوئی جج استعفی دےد یتا ہے تو روایت کے مطابق  سپریم جوڈیشل کونسل میں اُس کیخلاف کارروائی رک جاتی ہے ۔لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےسپریم جوڈیشل کونسل کے آخری اجلاس میں جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے کافیصلہ کیا ہے ۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس فی الحال الیکشن تک ملتوی کردیا گیا ہے اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو اپنے دفاع کیلئے مزید وقت بھی مل گیا ہے ۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی صاحب کوعہدے پر نہ ہونے کے باوجود  دفاع کا حق بھی دیا ہے ۔

چیف جسٹس قاضیفائز عیسیٰ اپنے رد عمل میں کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا ، کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے اور چلا جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔ تمام پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، عوام جانناچاہتے ہیں شکایات حقیقی تھیں یا نہیں، کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے۔اب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اِن کا استعفی دینا سمجھ میں آرہا تھا کیونکہ اُنہیں لگ رہا تھا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع نہیں کرسکیں گے۔

دوسری طرف جسٹس ریٹائرڈ اعجازالاحسن جو 10 مہینے بعد چیف جسٹس بننے جارہے تھے اُن کے استعفےسے ہر کوئی حیران ہے ۔سینیئر صحافی حامد میر کے مطابق  ریٹائر ہونےوالے جج صاحب کیخلاف دو ریفرنس آنے والے تھے اور ایک ریفرنس میں200 دستاویزی ثبوت بھی لگائے گئے تھے. یہ ریفرنس عنقریب سپریم جوڈیشل کونسل میں فائل ہونے والے تھے اور اُن کو اِس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اُن کیخلاف ریفرنس آنے والا ہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ شاید وہ بھی اِن الزامات کا دفاع نہ کرسکیں اِس لیے اُنہوں نے بھی جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی ۔

یہ تاثر درست نہیں گیاکہ ایک شخص الزامات لگنے سے پہلے ہی راہ فرار اپنا گیا۔جسٹس ریٹائرڈاعجازالاحسن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے متنازع فیصلے کیے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر جو مخصوص بینچ بنانے کا الزام لگتا تھا اُس بینچ میں جسٹس ریٹائرڈ اعجاز الاحسن اور  جسٹس ریٹائرڈمظاہر نقوی پیش پیش تھے ۔99 فیصد کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن شامل ہوتے ۔اُنہوں نے پاناما کا متنازعہ فیصلہ دیا۔پھر نواز شریف کیخلاف جو پاناما جےآئی ٹی بنی وہ اُس کے نگران جج بھی بنے لیکن نواز شریف ایک ایک کرکے اپنے کیسز میں سرخرو ہوئے جس کے بعد یہ ویسے ہی اِس عہدے پر رہنے کا جواز کھو چکے تھے ۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جججسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ بہت سے جواب طلب سوال چھوڑ گیا ہےکیونکہ ان کا دور تنازعات سے بھرپور سمجھا جاتا ہے ۔ان تنازعات میں پاناما پیپرز کیس کی احتساب عدالت کی نگرانی سے لے کر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے مقدمات سننا، گرینڈ حیات ٹاور کیس کی سماعت پراعتراضات اور جسٹس مظہر اکبر نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل سےبچانے کی کوششوں جیسے معاملات شامل ہیں۔ جب سے جسٹس میاں ثاقب نثار  نے چیف جسٹس کا حلف لیا تھا جسٹس اعجاز الاحسن ہر اہم مقدمےکی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کےججوں نے اس وقت بھی تشکیل دیے جانے والے بینچوں میں ججوں کی شمولیت کے حوالے سے بے شمار خط لکھے تھے کہ کس طرح دوسرے ججوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

بہت سی سیاسی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام(ف) نے کھلے عام جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کی بنچز میں شمولیت پر اعتراضات کیےتھے۔مسلم لیگ نون نے بالخصوص ان دوجج صاحبان پر اعتراضات کیے تھے اور پارٹی قیادت کے خلاف ان کے تعصب اور بغض کی نشاندہی کی تھی۔یہاں تک کہ پارٹی کے کئی  رہنماؤں نے سینئر ججوں کی غیر جانبداری کےحوالے سے سوالات اٹھائے تھے اور کئی ایسے حوالے دیے تھے جن میں جسٹس اعجاز الاحسن نے نوازشریف اور شہباز شریف کیخلاف فیصلےدیے تھے۔فروری 2023 میں اُس وقت کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی پرالزامات عائد کیے تھے کہ وہ مسلم لیگ نون کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نوازلیگ کی قیادت کے حوالے سے مقدمات سے اُنہیں دور رکھا جائے۔ لیکن ان تحفظات اور اعتراضات  کے باوجود اُنہوں نے اپنے آپ کو کبھی ان بنچوں سے علیحدہ نہیں رکھا ۔اُس وقت کے وزیر داخلہ راناثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نگراں جج کے طور پر پارٹی قائد نوازشریف کے خلاف کیس کی نگرانی گرتے رہے اور ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے جو کہ مضبوط نکتہ تھا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نےتقریباً ہر مقدمے میں نوازشریف اور شہبازشریف کے خلاف فیصلہ دیا اور ان میں پاناما پیپرز کے علاوہ پارٹی قیادت کا کیس، پاکپتن زمین الاٹمنٹ کیس اور رمضان شوگر ملز کیس وغیرہ شامل ہیں۔پھر اسی طرح گرینڈ حیات ٹاور کیس مین جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر وکلا نے سوال اٹھایا تھا۔ ان وکلا کےمطابق جسٹس اعجازالاحسن گرینڈ حیات ٹاور بنانے والی کمپنی کے لیگل ایڈوائزر تھے۔ مفادات کے اس واضح ٹکراؤ کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو بینچ سے نہیںنکالا اور بالآخر اپنی کلائنٹ کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا۔

حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے درمیان اُس وقت ایک تنازع کھڑا ہوا جب بینچوں کی تشکیل اور ان میں سینئر ججوںکی شمولیت کا معاملہ زیر غور آیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے بینچوں کی تشکیل سے متعلق اپنےتحفظات کا اظہار کیا۔مختصر بات یہ ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نےسپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے عرصے میں تنازعات کا شکار رہے۔

لگ ایسا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون کے خلاف ہائبرڈ نظام کے کردار ایک ایک کرکے پاش پاش ہورہے ہیں ۔لیکن اِن کا صرف استعفیٰ دینے سے معاملے پر  مٹی ڈال دینا زیادتی ہوگی۔یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ جسٹس اعجازالاحسن نے استعفی کیوں دیا ؟اگر ان کیخلاف ریفرنس آنے والی بات درست ہے تو حقائق نہ صرف قوم کے سامنے آنے چاہئیں بلکہ اِن کیخلاف بھی تحقیقات یقینی بنانی چاہیے کیونکہ بقول چیف جسٹس پاکستان کے کسی کو عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر بھاگنے نہیں دیا جانا چاہیے۔

اِس وقت ایسے حالات نہیں کہ آئینی بحران جنم لے ۔عدلیہ ہی ہے جس سےعوام کو انصاف کی اُمید ہے اگر وہی بحران کا شکار ہوجائے تو پھر کیا بنےگا؟

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین