Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

سیاست میں مداخلت کی نئی راہ کھل گئی

Published

on

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں جو آمرانہ روش اختیار کی اس کے نتیجے میں اب بہت سے ایسے جمہوریت اور آئین پسند دانشور حلقے بھی ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ہمدردی کے  دو بول بولنے سے احتراز کرتے ہیں مبادا انہیں پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ لیکن تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والا سلوک اس تک محدود نہیں  بلکہ اس کے اثرات مستقبل میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام پر مرتب ہو سکتے ہیں۔

 سپریم کورٹ کے فیصلے سے تحریک انصاف کو کتنا نقصان ہوا ؟ وہ عملا الیکشن سے باہر کردی گئی، مستقبل کے منتخب ایوانوں میں 230 مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی، پی ٹی آئی مارچ میں ہونیوالے سینیٹ انتخابات میں بھی آؤٹ ہوگئی۔ الیکشن کی ساکھ کتنی ہوگی اور کتنی نہیں ہوگی؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن میرے لئے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں جمہوریت، جمہوری اداروں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل پر کس طرح اثرانداز ہوگا۔

 چیف جسٹس آف پاکستان نے جنرل پرویزمشرف کی پھانسی کی سزا بحال کرکے جمہوری عمل میں مہم جوئی کا راستہ روکنے کا پیغام دیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو تسلیم کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی پر عدالتی مہر ثبت کی تو کیا اب تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ کرکے جمہوری اقدامات کو مزید آگے بڑھایا ہے ؟  بدقسمتی سے اس کا جواب ہے ۔۔۔ ہرگز نہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ جس کے ملکی سیاست پر دوررس منفی اثرات مرتب ہونگے۔

المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نظر نہیں آرہی۔

ہمیں یاد ہے جب 2006 میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے سیاست میں غیر جمہوری قوتو کی مداخلت روکنے کے لئے تاریخی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو اس پر عملدرآمد کے لئے 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں دونوں جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام ایک جامع آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اورمنتخب جمہوری حکومتوں کے خاتمے کا راستہ روکا جائے۔ اس سلسلے میں آئین میں درج بدنام زمانہ آرٹیکل 58 ٹو بی کا خاتمہ ضروری تھا جو صدرمملکت کو منتخب اسمبلی توڑنے کا اختیار دیتا تھا۔ اس پر دونوں جماعتوں میں اتفاق ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کی طرف سے تجویز آئی کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرٹیکل 62 اور 63 میں ضیا دور میں لائی گئی ترامیم بھی کا بھی خاتمہ کردیا جائے، جو 58 ٹو بی کے خاتمے کے بعد منتخب حکومتوں کے خلاف اگلا خطرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن مسلم لیگ نون نے اپنے دائیں بازو کے ووٹ بنک کو راضی رکھنے کے لئے اس سے اتفاق نہ کیا اور کہا گیا کہ کسی بھی عوامی نمائندے کے صادق و امین ہونے کے لئے ان دونوں اسلامی شقوں کا آئین میں موجود ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اور ان دفعات کو حذف کرنا آئین پاکستان کی اسلامی روح کے خلاف ایک سازش قرار دیدیا گیا۔ اس سنگین الزام پر سب خاموش ہوگئے۔

پارلیمنٹ کو توڑنے کا صدارتی اختیار سب نے مل کر ختم کردیا گیا اور جب ایوان صدر کا سازشی در بند ہوگیا تو پھر غیرمرئی ہاتھوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ مل کر 2012 میں اسی آئینی شق (آرٹیکل 62 ون ایف) کو استعمال کرتے ہوئے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا۔ نون لیگ کو تب بھی سمجھ نہ آئی۔ ان کی طرف سے بیانات آئے کہ گیلانی گھر جانے میں دیر کیوں کر رہے ہیں۔

بات یہیں نہیں رکی۔ پھر 2013 میں مسلم لیگ نون کی حکومت آئی۔ نوازشریف کی طرف سے خارجہ پالیسی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پرانی خواہش، ہاؤس ان آرڈر کرنے کی نصیحتوں پر مبنی ڈان لیکس، اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، الغرض فوج کے ساتھ ان کی بگڑ چکی تھی۔ ان حالات میں پانامہ لیکس کا جن بوتل سے نکل آیا۔ اس پر جے آئی ٹی کی تشکیل، سپریم کورٹ میں طویل سماعتیں، شریف فیملی کا بدترین اور قابل مذمت عدالتی و میڈیا ٹرائل، سپریم کورٹ ججز کی طرف سے نوازشریف کو ڈان اور سیسیلین مافیا کے القابات اور آخر میں اقامہ پر نااہلی ۔۔۔ یعنی ہتھیار ایک بار پھر آرٹیکل 62/63 ہی استعمال ہوا۔ لیکن یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر مطمئن نظر آنے والے نوازشریف کے ساتھ محبت کا اظہار کچھ بڑھ کر ہوا۔ گیلانی صاحب تو پانچ سال کے لئے نااہل ہوئے تھے لیکن نوازشریف کو تاحیات نااہل کردیا گیا۔

اب جبکہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے  تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا اور پی ٹی آئی کو عملا الیکشن سے بطور پارٹی باہر کردیا ہے تو اس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جے یوآئی کے لیے انتخابی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اب ان جماعتوں کے لئے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا اور پھر حکومتیں تشکیل دینا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ انہیں معلوم ہے کہ الیکشن قوانین کا یہ طوفان بلا کسی روز ان کے گھر کا رخ بھی کرسکتا ہے لیکن جانتے بوجھتے کوئی اس فیصلے کے سیاسی مضمرات پر لب کشائی نہیں کررہا۔

 سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیں تو اس کے بعد دوسری سیاسی جماعتوں کا مستقبل بھی اچھا نظر نہیں آتا۔ جس طرح آرٹیکل 62 اور 63 کے ذریعہ چند ججوں کی طرف سے منتخب وزرائے اعظم کو نااہل کرنے پر تنقید ہوتی ہے اسی طرح اس عدالتی فیصلے سے ایک اور ریاستی ادارے کی سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اگر الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے انٹراپارٹی انتخابات کا جائزہ لے سکتا ہے تو خاطر جمع رکھیں کہ کل کوالیکشن کمیشن وسیع تر قومی مفاد اور ملک میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو یقینی بنانے کا عظیم مشن بھی شروع کرسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ ان کے انتخابات الیکشن کمیشن کے نمائندوں کی زیرنگرانی ہوں گے۔ آج جو سیاسی جماعتیں ریاست کے ساتھ اچھے تعلقات کو انجوائے کر رہی ہیں کل کو تعلقات خراب ہونے پر ان کے انتخابات کے خلاف بھی کوئی شکایت کنندہ الیکشن الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتا ہے۔  یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ موروثی سیاست کے خاتمے کے قوانین بھی جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک ہی گھر سے باپ بیٹے یا باپ بیٹی یا پھر بھائیوں کے بیک وقت الیکشن لڑنے کو بھی جمہوریت کے استحکام کے لئے زہرقاتل قرار دے سکتا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔

    سات دہائیوں سے جاری مائنس مائنس کا کھیل آج بھی جاری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم آج بھی پچاس، ساٹھ کی دہائی میں ہی رہ رہے ہیں۔ سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ نہ تو ہمیں مکمل سیڑھی مل رہی ہے نا ہی سانپ کم ہورہے ہیں۔ بہرحال بچ جانے والی سیاسی قیادت کو جائزہ لینا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے 18 ویں ترمیم کے ذریعہ ختم کی جانے والی 58 ٹو بی کہیں الیکشن کمیشن کے ہاتھ تو نہیں آگئی۔  ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین