Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

عدالتی فیصلہ یا سیاسی عداوت؟

Published

on

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان ” بلا “واپس لے لیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یہ فیصلہ عین اُس دن آیا جب  امیدوار اپنی  سیاسی جماعت کی طرف سے متعلقہ ریٹرننگ افسروں کے سامنے ٹکٹ داخل کرا رہے تھے۔

تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کا چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کا فیصلہ کسی صورت بھی توقعات کے برعکس نہیں۔ لگ بھگ سبھی کو یہ ہی اندازہ تھا کہ تحریک انصاف کو اُن کا انتخابی نشان بلا نہیں ملے گا۔ اس فیصلے سے جہاں انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے وہیں ایک بڑی سیاسی جماعت کے تمام امیدواروں کو سیاسی پہچان یا شاخت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں یہ فیصلہ جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں ہے اور انتخابات کی شفافیت کیلئے طے شدہ معیار کی عکاسی نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک دوہرا معیار قائم ہونے کا تاثر بھی پیدا ہوا ہے۔ ایک طرف تو الیکشن کمیشن  نے عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی کو انٹر پارٹی الیکشن نہ کرانے انہیں جرمانہ تو کر دیا اور ساتھ ہی چار ماہ میں انتخابات کرانے کی مہلت دے دی جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لیکر اسے ایک طرح  سے کڑی سیاسی سزا دی گئی ہے۔

تجزیہ نگاروں نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ متعصبانہ  ہے کیونکہ سابق وزیر عمران خان کی حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا اور اس عدوات کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسی کو اس بنچ کا حصہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔

انتخابی نشانات کسی بھی سیاسی جماعت کی شاخت ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر اس کے انتخابی نشان سے واضح ہوجاتا ہے کہ کس سیاسی جماعت کی بات کی جارہی ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان کو  “تلوار” کو ہی انتخابی نشانات کی فہرست سے خارج کر دیا گیا اور اس وجہ سے پیپلز پارٹی کو 1988 پر نئے انتخابی نشان یعنی “تیر” پر انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔

الیکشن کمیشن نے 2013 میں جماعت اسلامی کو اُس کا پرانا انتخابی نشان “ترازو”  لوٹادیا جس پر جماعت اسلامی نے 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن سوال یہ ہے اس مرتبہ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے انتخابی نشان کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے؟

پہلے الیکشن کمیشن اور  پھر سپریم کورٹ کی جانب سے کمیشن کے فیصلے کی تائید کرنے سے تحریک انصاف سرکاری کھاتوں میں ایک  جماعت نہیں رہی اور اسی وجہ سے اس کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اترے ہیں اور انہیں الگ الگ انتخابی نشانات ملے۔ عوامی سطح پر تو تحریک انصاف کا وجود برقرار ہے اور رہے گا البتہ  پارلیمانی جماعت کے طور پر اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہوگی۔ اس طرح ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ملکی سیاست میں کوئی نئی اور مشکل بات نہیں ہے۔

یہ بھی قانونی نکتہ ابھی تک تصفیہ طلب ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی جماعت کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو مختلف انتخابی نشانات الاٹ کرنے پر بہت لے دے ہو رہی. تمام امیدواروں کو الگ الگ طرح کے انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے جو بظاہر تضحیک آمیز ہیں. یہ تمام تر کارروائی انصاف نہیں سیاسی عناد لگ رہی ہے۔

تحریک انصاف پر نیشنل عوامی پارٹی کی طرح پابندی تو نہیں لگائی  گئی البتہ اسے ایک طرح غیر فعال کرنے کی بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی ہے لیکن اس بات کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی مقبول سیاسی جماعت کو سیاسی میدان سے باہر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ماضی اس بات کا شاہد ہے۔

پیپلز پارٹی تمام تر رکاوٹوں کے بعد 1988 میں اقتدار میں واپس آئی اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں عوام دوست کے نام پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے اور پھر 6 برس تک قومی انتخابات نہ ہوسکے اور جو انتخابات ہوئے وہ بھی غیرجماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ مسلم لیگ نون کو 1997 میں  ہیوی مینڈیٹ ملا لیکن 2002 کے انتخابات میں دو درجن نشستوں تک محدود ہوگئی تھی۔

تحریک انصاف نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے کیخلاف اپنی توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی اور تحریک انصاف کے وکیل نے دو ٹوک کہا کہ الیکشن کمیشن پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ عدالتی استفسار پر سردار لطیف کھوسہ نے ساتھ ہی کہا کہ انتخابی نشان لیکر تو فیلڈ ہی چھین لی گئی ہے۔

ووٹ کی طاقت سب بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے اور اس لیے  مقتول وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ سوموار کو تحریک انصاف کی لیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے باور کرایا کہ الیکشن کمیشن ایک جماعت کے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ اسے دوسری جماعتیں کیوں نظر نہیں آتیں۔ بہرحال اس بات کا بھی تعین ہونا باقی ہے کہ یہ فیصلہ کسی عدوات یا پھر کسی کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تو نہیں؟

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین